ہاتھ اُٹھاتے تھے تو اس روایت کا مطلب یہ ہے کہ سلام پھیرتے وقت رفع یدین نہ کیا کرو، یہ مطلب نہیں کہ عندالرکوع وعندالرفع راسہ، رفع یدین نہ کرو۔
جواب1:علامہ زیلعی نصب الرایہ ج1ص 393 میں لکھتے ہیں کہ ان دونوں روایتوں کا سیاق جدا جدا ہے لہٰذا ایک روایت کو دوسری کی تفسیر نہیں بنایا جاسکتا۔
حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنھم مسجد کے اندر نماز میں مشغول تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر سے تشریف لائے اور دوسری روایت میں ہے کہ (كُنَّا إذَا صَلَّيْنَا مَعَ رَسولِ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰه عليه وسلَّمَ) الحدیث۔ اس سے معلوم ہوا کہ عند السلام جس رفع سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی نماز میں مصروف تھے شریک تھے۔
جواب نمبر 2۔ ان شاء اللہ العزیز بحث اپنے مقام کو مذکور ہے کہ(العبرة بعموم اللفظ لا بخصوص السبب) یعنی اعتبار عموم لفظ کا ہے نہ کہ خصوص سبب کا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اسْكُنْوا فِي الصَّلاةِ) فرمایا ظاہری الفاظ چاہتے ہیں کہ عندالرکوع یا عندالرفع یا عندالسلام کسی وقت رفع یدین نہ کیا جائے۔
دلیل: عن عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ صحابی جلیل (لا يسأل عن مثله) امام دارقطنی ج1 ص 55 میں لکھتے ہیں:
(وَإِذَا اجْتَمَعَ[1] ابْنُ مَسْعُودٍ وَابْنُ عُمَرَ اخْتَلَفَا وَابْنُ مَسْعُودٍ أَوْلَى أَنْ يُتَّبَعَ وَقَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ : نَعَمْ قَالَ اِليٰ لَكُمْ صَلٰوةَ رَسُوْلِ اللّٰهِ فَصَلّٰي وَلَم يَرْفَعْ بِيَدَيْهِ فِيْ اَوَّلِ مَرَّةٍ)
یہ روایت ترمذی ج1 ص 64 اور طحاوی ج1 ص 110، اور مسند احمد ج 1ص 442 میں مذکور ہے اورمسند احمد کے الفاظ یہ ہیں اور وَ رَفَعَ بِيَدَيْهِ فِيْ اَوَّلِ مَرَّةٍ اور ابوداؤد ج1
|