ایک قول کو ان کے اختیار کا نام دے کر بیان کرنا نرا مغالطہ ہے کیونکہ ان کے دوسرے قول ہاتھ باندھنے والے کو بہت سے مالکی وغیر مالکی علماء نے ترجیح دی ہے نیز امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے خود اپنی مایہ ناز کتاب مؤطا میں سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کی ہاتھ باندھنے والی حدیث روایت کی ہے جس سے امام مالک کے اختیار کردہ قول وعمل پر کچھ نہ کچھ روشنی پڑتی ہے۔ پھر اس جگہ زیربحث ہاتھ باندھنا اور چھوڑنا نہیں بلکہ زیر ناف اور سینے پر باندھنا زیر بحث ہے بہرکیف صورت حال کچھ بھی ہو اس کا صاحبِ تحریر اور
ا ن کے ہمنواؤں کو کوئی فائدہ نہیں کیونکہ امام کوئی ہوں مالک ہوں یا شافعی رحمۃ اللہ علیہ احمد رحمۃ اللہ علیہ ہوں یا ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ یا کوئی اور امام ہوں ان کا قول وعمل دین میں حجت نہیں دین میں حجت ودلیل صرف اور صرف کتاب وسنت ہے۔
نوٹ نمبر 6: امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق کہناکہ” زیر ناف ہاتھ باندھنے کو انہوں نے مشاہدہ سے لیاہے الخ“۔ سراسر غلط بیانی ہے جس کی کوئی وجہ جواز نہیں۔ پھر یہ کہناکہ” امام مجتہد جس عمل کو اختیار کرے وہ اس کی تصحیح ہوتی ہے“ بھی بے بنیاد اور غلط ہے کتاب وسنت اور عقل ونقل میں اس کی کوئی اصل نہیں۔ چند منٹ کےلیے اس قاعدہ بے فائدہ کو تسلیم کرلیاجائے تو بھی ناف سے اوپر ہاتھ باندھنا ہی صحیح بنتا ہے کیونکہ اس عمل کو اختیار کرنے والوں میں بھی بڑے بڑے مجتہد گزرے ہیں جن میں حضرت علی رضی اللہ عنہ شامل ہیں کیونکہ ابوداؤد میں ہے کہ وہ ناف سے اوپر ہاتھ باندھا کرتے تھے۔
پھر جب کسی مجتہدکاکسی عمل کو اختیار کرنا اس عمل کی تصحیح ہے تو پھر کیا خیال ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کسی عمل کواختیار کرنا اس عمل کی تصحیح نہ ہوگی؟تو پتہ چلا ان مقلدین نے نہ تو حدیث پر عمل کیا اور نہ ہی اپنے اس خانہ سازاُصول پر ؎
تقلید کی شامت کہ احادیث کو چھوڑا
اور اپنے اُصولوں کو بھی توڑا پھوڑا
|