بات تو اس کے متعلق پہلے لکھا جاچکا ہے کہ وہ قاعدہ کلیہ نہیں۔ نیز واضح کیاگیا ہے کہ ابراہیم بن عثمان واسطی والی روایت ان ضعیف روایتوں میں شامل ہے جن کا نصف تعدد طرق سے بھی زائل اور دُور نہیں ہوتا پھر علامہ شوکانی بذاتِ خود اپنی کتاب نیل الاوطار کتاب الجنائز باب القرأۃ میں ابوشیبہ ابراہیم بن عثمان کی ایک روایت نقل کرکے لکھتے ہیں” في سندہ إبراهيم بن عثمان أبو شيبة الواسطي وهو ضعيف جدا “ کہ اس کی سند میں ابراہیم بن عثمان ابوشیبہ واسطی ہےاور وہ انتہائی ضعیف ہے اب تک آپ نے روایت” لَوْ عَاشَ “الخ کا ابو شیبہ واسطی والا صرف ایک ہی طریق ابن ماجہ کے حوالے سے پیش کیا ہے جس کی حقیقت و حالت آپ پر آشکار کردی گئی کہ راوی ابو شیبہ واسطی سخت ضعیف ہے ملا علی قاری اور علامہ شوکانی بھی اسے ضعیف کہتے اور لکھتے ہیں اور ابھی تک آپ نے اس روایت کے دوسرے دو طریق پیش ہی نہیں کیے ان پر مفصل بات چیت تو تب ہوگی جب آپ انھیں پیش فرمائیں گے۔ سردست اتنی بات یاد رکھیں کہ ان دونوں طریقوں کی حالت بھی آپ کے پیش کیے ہوئے واسطی صاحب والے طریق کی حالت سے مختلف نہ ہو گی ان شاء اللہ تعالیٰ الحاصل روایت” لَوْ عَاشَ “الخ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں اور نہ ہی یہ آپ کی حدیث ہی ہے۔
آگے پھر آپ نے ملا علی قاری کا نوٹ نقل فرمایا ہے حالانکہ یہ بندہ بار بار لکھ چکا ہے کہ آپ کا دعویٰ ہے”حضرت مرزا غلام احمد قادیانی امتی نبی ہیں“اور اس دعویٰ کے دلائل قرآن کریم اور احادیث سے پیش کرنا، آپ پر لازم ہے مگر آپ ہیں کہ ملا علی قاری کے نوٹ کو لیے پھرتے ہیں۔ تو آپ ہی سوچیں، سمجھیں اور خدا خوفی سے کام لیں آیا ملا علی قاری کا یہ نوٹ قرآن کریم ہے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی سنت اور حدیث ہے؟ نہیں ہرگز نہیں۔ تو اسے باربار بیان کرنے سے آپ کو فائدہ ؟پھر ملا علی قاری کے اس نوٹ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹے ابراہیم سے متعلق ایک غیر ثابت جملہ
|