Maktaba Wahhabi

48 - 896
...الخ سے ابراہیم ابن عثمان واسطی کے ابن عدی کے ہاں ثقہ ہونے کو اخذ کرنا سراسر غلط ہے اس کی وجوہ پہلے لکھی جاچکی ہیں۔ آپ لکھتے ہیں”اسی طرح بیضاوی کےحاشیہ”الشهاب علي البيضاوي“میں بھی اسی حدیث کے متعلق لکھاہے”إمّا صِحَّةُ الْحَدِيْثِ فَلَا شُبْهَةَ فِيْهَا “الخ(بزعم شما آپ کا پرچہ دوم ص 2) جواباً گزارش ہے کہ آ پ کے آخری نبی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرماننبيُّ اللّٰه عيْسٰى عَلَيْه السَّلَام“ كو كوصرفنبيُّ اللَّه“ كرلینے حضرت ابن عدی کے قولوهو خير من إبراهيم بن أبى حَيّة“ کو صرف” أبى حَيّة“بناڈالنےاور امام نسائی اورامام دارقطنی کی تہذیب التہذیب میں ابراہیم بن حبیب بن الشہید الازدی سے متعلق تو ثیق کو ابوحیہ پر چسپاں کردینے کی بنا پر بندہ کو آپ کے اس مندرجہ بالا حوالہ پر یقین نہیں آرہا۔ کیا بعید کہ آپ نے اس جگہ بھی کمال صفائی سے کچھ کا کچھ بنا دیا ہو۔ اس لیے گزارش ہے کہ آپ حاشیہ”الشهاب علي البيضاوي“ کا یہ مقام مجھے دکھائیں اور ساتھ ہی اس حاشیہ والے بزرگوں کے علم وحدیث ورجال میں درجہ و مرتبہ کو بھی واضح کریں کیونکہ بات محدثین کےحضرت واسطی صاحب کو ضعیف قرار دینے نہ دینے پر چل رہی ہے۔ پھر یاد رہے کہ روایت وَلَوْ عَاشَ“ الخ کی سند ضعیف ہونے کی بنا پر اس کا غیر ثابت ہوناغیر صحیح اور غیرحسن ہونا ثابت ہوچکا ہے تو اب اس سےمتعلق کسی مُحَشِّي کا” إمّا صِحَّةُ الْحَدِيْثِ“ الخ كہہ دینا کوئی وقعت نہیں رکھتا۔ آپ ہی لکھتے ہیں علامہ شوکانی اس حدیث سے متعلق“ الخ( بزعم شما آپ کا پرچہ دوم ص 3) علامہ شوکانی نے اس مقام پر اپنے خیال کی بنیاد اس جملہ”لَوْ عَاشَ“ الخ کے تین صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین سےوارد ہونے پررکھی ہے وہی تعدد طرق سے قوت حاصل ہونے والی
Flag Counter