Maktaba Wahhabi

47 - 896
آپ کا سبو ہے جب اور جیسے چاہیں اس سے اپنا جام بانام بھر لیں۔ ع سبو اپنا اپنا ہے جام اپنا اپنا 2۔ ثانیاً آپ کو پہلے علم ہوچکاہے کہ”خير من أبى حَيّة“ کی جگہ اصل میں”وهو خير من إبراهيم بن أبى حَيّة “ ہے اور ابراہیم بن ابی حیہ کے متعلق میزان الاعتدال میں لکھاہے: قَالَ الْبُخَارِيُّ مُنْكِرُ الْحَدِيْثِ وَقَالَ النِّسَائِي ُّ ضَعِيْف وَقَالَ الدَّارَ قُطْنِيُّ مَتْرُوْك ” ابراہیم بن ابی حیہ کو امام بخاری منکر الحدیث، امام نسائی ضعیف اور امام دارقطنی متروک کہتے ہیں۔ “ 3۔ ثالثاً ایک ضعیف راوی کے دوسرے ضعیف ہونے سے اچھا ہونے سے نسبتاً اچھے راوی کا ثقہ ہونا ہرگز نہیں نکلتا۔ كَمَا لَا يَخْفيٰ عَليٰ اَهْلِ الْعِلْمِ ہاں اس سے دوسرے ضعیف کی بنسبت اچھے ضعیف کا نسبتاً کم درجہ کا ضعیف ہوناضرور نکلتاہے مگر رہے گا تو ضعیف ہی ثقہ تو نہیں بن جائے گا۔ مثلاً ابراہیم بن عثمان اور ابراہیم بن ابی حیہ دونوں راوی سخت ضعیف ہیں تو اب کسی صاحب کے ابراہیم بن عثمان کو ابراہیم بن ابی حیہ سے اچھا کہنے سے ابراہیم بن عثمان ثقہ تو ہرگز نہیں بن سکتا۔ کچھ تو سوچیں اور خدا خوفی سے کام لیں۔ 4۔ رابعاً ا صولی طور پر آپ کو ابوحیہ صحیح ابراہیم بن ابی حیہ کے متعلق حضرت ابن عدی کی اپنی رائے نقل فرمانا چاہیے کیونکہ ” خير من “ الخ تو ابن عدی ہی کہہ رہے ہیں نہ کہ امام نسائی اور امام دارقطنی اور آپ لکھتے ہیں”رائے مختلف ہوسکتی ہے ایک آدمی ایک آدمی کو کسی وجہ سے غیر معتبر سمجھتا ہے اور دوسرا معتبر“(بزعم شما آپ کا پرچہ دوم ص 2) لہٰذا آپ کا حضرت ابن عدی کے قول” وهو خير من
Flag Counter