دوری نے ابن معین سے بیان کیا کہ معمر کی حدیث میں عبدالرزاق، ہشام بن یوسف سے زیادہ پختہ تھے اور یعقوب بن شیبہ نے علی بن مدینی سے بیان کیا وہ فرماتے ہیں کہ مجھے ہشام بن یوسف نے کہاکہ عبدالرزاق ہم سب سےزیادہ علم اور حافظہ والے ہیں تو یعقوب نےفرمایا وہ دونوں ثقہ ثبت ہیں اور ذھلی نے کہا کہ وہ حدیث میں ان سب سے زیادہ بیدار مغز تھے اور وہ حفظ رکھا کرتے تھے ابن عدی نے فرمایا اس کی طرف ثقہ مسلمانوں نے رحلت کی اور اس سے حدیث لکھی مگر انہوں نے اس کو تشیع کی طرف منسوب کیا اور یہ سب سے بڑی چیزہے اور جولوگوں نے اس پر لگائی ہے۔ رہااس کا صدق تو مجھے اُمید ہے کہ اس میں کوئی خرابی نہیں نسائی نے کہا اس میں نظر ہے پس جنہوں نے اس سےآخری عمر میں لکھا ہے انھوں نے اس سے منکر حدیثیں لکھیں ہیں اوراثرم نےاحمد سے بیان کیا کہ جس نے اس سےنابینا ہونے کے بعد سناہے وہ کوئی چیز نہیں ہے اور جو اس کی کتابوں میں ہے وہ صحیح ہے اور جو اس کی کتابوں میں نہیں تو اس کی تلقین کی جاتی تو تلقین قبول کرتا تھا میں کہتا ہوں شیخین نےاس سے ان لوگوں کی حدیث میں احتجاج کیا ہے جنھوں نے اس سے اختلاط سے پہلے سناہے اور اس کا ضابطہ یہ ہے کہ جنھوں نے اس سے 200 سے پہلے سناہے(وہ ٹھیک ہے) اور اس کے بعد اس میں تغیرآگیا تھا اور اسی عرصہ میں احمد بن شبویہ نے اس سے سنا جیسا کہ اثرم نے احمد سے بیان کیا ہے اور اسحاق دبری نے بھی اور ابوعوانہ اور طبرانی کے شیوخ کی ایک جماعت نے بھی جو 280 کے قریب تک متاخر تھے اورباقی نے اس سے روایت کی۔ اھ
میں کہتا ہوں:اسحق بن ابراہیم ابویعقوب دبری کتاب مصنف کو عبدالرزاق سے روایت کرنے والے ہیں اورآپ جان چکے ہیں کہ حافظ
|