Maktaba Wahhabi

475 - 896
هذا حاصل ما ذكره في الفتح هن الاختلاف فى ذلك : وأما العدد الثابت عنه صلى اللّٰه عليه وآله وسلم في صلاته فى رمضان، فأخرج البخارى وغيره عن عائشة أنها قالت: «مَا كان النبي صلی اللہ علیہ وسلم يَزيدُ في رَمَضان ولا في غيره على إحدى عشرة ركعة» وأخرج ابن حبان في صحيحه من حديث جابر أنه صلى أللّٰه عليه وآله وسلم: «صَلى بهم ثمان ركعاتٍ ثم أوتر. وأخرج البيهقي عن ابن عباس: «كان يصلي في شهر رمضان في غير جَمَاعَةٍ عشرينَ رَكُعَةً وَالوتر زاد سليم ن الرازى فى كتاب الترغيب له « ويوتر بثلاث، قال البيهقي : تفرد به أبوشيبة إبراهيم بن عثمان وهو ضعيف وأما مقدار القراءة في كل ركعة فلم يرد به دليل. - والحاصل - أن الذي دلت عليه أحاديث الباب وما يشابهها هو مشروعية القيام في رمضان والصلاة فيه جماعة وفرادى فقصر الصلاة المسماة بالتراويح على عدد معين وتخصيصها بقراءة مخصوصة لم يرد به سنة)اھ(نیل الاوطار ج 3ص53) ”حافظ نے فرمایا:اور ان روایتوں کے درمیان تطبیق۔۔ ۔ ۔ ۔ یہاں تک کہ شوکانی نے کہا کہ یہ اس اختلاف کا خلاصہ ہے جو فتح الباری میں اس مسئلہ میں ذکر کیا ہے۔ رہی وہ تعداد جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے رمضان کی نماز میں ثابت ہے تو بخاری وغیرہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا سے روایت کی ہے انہوں نےفرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے اور ابن حبان نےاپنی صحیح میں جابر کی حدیث بیان کی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں آٹھ رکعتیں پڑھائیں پھر وتر پڑھایا اور بیہقی نے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ آپ ماہ رمضان میں جماعت کےبغیر
Flag Counter