Maktaba Wahhabi

473 - 896
تیرہ اور کبھی بیس۔ اس تطبیق کی طرف حافظ نے یہ کہہ کر اشارہ کیاہے کہ ان روایات کے درمیان احوال کے اختلاف کاذکر کرتے ہوئے تطبیق ممکن ہے اور اس مقام پر ایک چوتھی تطبیق بھی ہے جو صاحب تحفۃالاحوذی نے ذکر کی ہے۔ پھر آپ سے مخفی نہیں رہنا چاہیے کہ تطبیق اورجمع کامفہوم دوسری اور تیسری تطبیق میں پہلی اور چوتھی تطبیق کی بہ نسبت زیادہ ہے فتفکر۔ 7۔ وسابعاً:اگر کوئی صاحب فرمائیں مانا کہ حنفیہ کے نزدیک ترجیح تطبیق سے مقدم ہے مگرآپ کے نزدیک توتطبیق ترجیح سے مقدم ہے تو جواباً عرض ہے کہ یہ درست لیکن محدث مبارکپوری اور علامہ داؤدی وغیرہ کی پیش کردہ تطبیقات بھی تو آخر تطبیقات ہی ہیں انہیں بھی اختیار کیا جاسکتا ہے البتہ اتنی بات یاد رہے کہ یہ ترجیح وتطبیق والی ساری گفتگو حضرت المولف کے اندر فکر کو پیش نظر رکھنے پر مبنی ہے ورنہ بندہ کے نزدیک تو محمد بن یوسف کےبیان”حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ابی بن کعب وتمیم داری کوگیارہ رکعات پڑھانے کا حکم دیا“ اور یزید وحارث کے بیانات میں تعارض تو سرے سے ہے ہی نہیں کیونکہ یزید اور حارث کے بیانات میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے گیارہ کا حکم دینے کی نفی نہیں کی گئی ان میں تو صرف لوگوں کےعمل کا ذکر ہے کہ وہ بیس رکعات پڑھتے تھے یا ہم بیس رکعات پڑھتے تھے یا قیام بیس رکعات تھا تو لوگوں کا بیس رکعات پڑھنا خواہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے گیارہ کاحکم دینے سےپہلے ہو خواہ گیارہ کا حکم دینے کے بعد کسی صورت میں بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے گیارہ کا حکم دینے سے متعارض نہیں ہے تو جب سائب بن یزید کے اصحاب ثلاثہ کے بیانات میں تعارض ہی نہیں تو اس مقام پر نہ تو تطبیق کی ضرورت ہے اور نہ ہی ترجیح کی اگر کوئی صاحب فرمائیں کہ لوگوں کاگیارہ کے حکم سے پہلے بیس رکعات پڑھنا تو واقعی گیارہ کے حکم سے متعارض نہیں مگر گیارہ کے حکم کےبعدلوگوں کابیس رکعات پڑھنا گیارہ کےحکم سے
Flag Counter