Maktaba Wahhabi

471 - 896
جفت اور وتر کے علاوہ چھتیس کردی گئی اور ابن حبیب نے ذکر کیا کہ تراویح پہلے گیارہ تھیں لوگ ان میں قراءت لمبی کرتے تھے تو یہ ان پر بھاری ہوگئی تو انہوں نے قراءۃ ہلکی کردی اور رکعتوں کی تعداد میں اضافہ کردیا چنانچہ وہ جفت اور وتر کے بغیر درمیانی قراءت کے ساتھ بیس رکعت پڑھتے تھے پھر انہوں نے قراءت میں تخفیف کردی اور رکعات جفت اور وتر کے بغیر چھتیس کردیں اور معاملہ اسی پر چل نکلا“ اورمحمد بن نصر نے داؤد بن قیس سے روایت کی کہ انہوں نے ف فرمایا کہ میں نے لوگوں کو(مدینہ میں) ابان بن عثمان اور عمر بن عبدالعزیز کے زمانہ میں پایا کہ وہ چھتیس رکعت قیام کرتے تھے اور تین وتر پڑھتے تھے اور مالک نے فرمایا ہمارے ہاں یہی امر قدیم ہے“۔ اھ(شرح موطا للزرقانی ج1 ص 239) (فيكون عمر رضي اللّٰه تعاليٰ عنه علي راي هؤلأء أمرهم أولا بالأفضل ثم نقلهم الي غير ألافضل وشان عمر رضي اللّٰه تعاليٰ عنه اجل وارفع من هذا كما يحصص من أرشاده أياهم الي القيام في آخر الليل وجمعه أياهم علي قاري واحد وانما راعي الأفضل فيهما فلم يكن ليراعي الأفضل في وقت القيام وكيفه ويدعها في كمه ثم لا دليل لأمر عمر رضي اللّٰه تعاليٰ عنه أياهم بِثَلَاثٍ وعِشْرِينَ كما تقدم نعم قد ثبت أن عمر رضي اللّٰه تعاليٰ عنه أمرابيا وتميما رضي اللّٰه تعاليٰ عنهما أن يقوما للناس باحدٰي عشرة فتامل۔ قَال الْبَاجِيُّ: وَاسْتَدْرَكَ بَعْضُ الْفَضِيلَةِ بِزِيَادَةِ الرَّكَعَاتِ ظاهر في ان في زيادة الركعات أستدراكالبعض فضيلة طول القيام والقراءة لأ كل فضيلته فالتطبيقات ألتي ذكرها ألعلماء
Flag Counter