علي ذالك وَرَوَى مُحَمَّدُ بْنُ نَصْرٍ مِنْ طَرِيقِ دَاوُدَ بْنِ قَيْسٍ قَالَ أَدْرَكْتُ النَّاسَ فِي إِمَارَةِ أَبَانَ بْنِ عُثْمَانَ وَعُمْرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ يَعْنِي بِالْمَدِينَةِ يَقُومُونَ بِسِتٍّ وَثَلَاثِينَ رَكْعَةً وَيُوتِرُونَ بِثَلَاثٍ وَقَالَ مَالِكٌ هُوَ الْأَمْرُ الْقَدِيمُ عِنْدَنَا
(شرح المؤطا للزرقانی ج 1 ص 239)
”اس سے ظاہر ہوا کہ گیارہ یاتیرہ رکعت قیام جبکہ ان میں قیام اور قراءۃ طویل کیے جائیں دونوں جلیل القدر ائمہ ابوحنیفہ اور شافعی کے نزدیک بھی تئیس، انتالیس اور اکتالیس رکعت قیام سے افضل ہے جبکہ ان میں قیام اور قراءۃ ہلکے ہوں۔ ہمارے علاقے میں آج کل عملی صورت یہی ہے کہ جو لوگ گیارہ رکعت پڑھتے ہیں ان کی قراءۃ تئیس رکعت پڑھنے والوں کی قراءت کےبرابر ہوتی ہے الا نادر اسی طرح اول الذکر لوگوں کا قیام آخر الذکر حضرات کے قیام سے عموماً لمباہوتا ہے تو پہلے لوگوں کا عمل قیام رمضان میں دوسرے حضرات کے قیام سے ابوحنیفہ اور شافعی کے نزدیک بھی افضل ہوگا۔ فتدبر۔ پھر وہ تطبیق جو صاحب رسالہ نے ابن عبدالبر وغیرہ سے بیان کی ہے اس کی بناتئیس یا اکتالیس رکعتوں میں قیام قراءت کی تخفیف پر ہے جیساکہ یہ بات خود ابن عبدالبر کی عبارت اور اس کے اس اردو ترجمہ سے ظاہر ہے جو مصنف نے کیا ہے اور یہی بات باجی کے اس کلام سے بھی ظاہر ہورہی ہے جس میں وہ فرماتے ہیں” توآپ نے پہلے انہیں قراءۃ طویل کرنے کا حکم دیا کیونکہ یہ افضل ہے پھر لوگ کمزور ہوگئے تو انہیں تئیس کا حکم دیا اور طویل قراءت میں تخفیف کردی اور اس سے فضیلۃ میں جو کمی آئی تھی اس کا کچھ حصہ رکعتیں زیادہ کرکے پورا کردیا“ اور یہ بھی فرمایا کہ ”اور یوم حرہ تک معاملہ اسی طریقے پر رہا پس لوگوں پرقیام بھاری ہوگیا تو انہوں نےقراءۃ کم کردی اوررکعات زیادہ کردیں چنانچہ رکعات کی تعداد
|