اس آخری قول یعنی قیام طویل کرنے اور کثرۃ رکوع سجود سے اس کے افضل ہونے کے قائل ہیں ان میں محمد بن حسن بھی شامل ہیں مجھے یہ بات ابن ابی عمران نے محمد بن سماعۃ سے بیان کی انہوں نے محمد بن حسن سے اور یہی قول ابوحنیفہ، ابویوسف اور محمد رحمۃ اللہ علیہ کا ہے“۔ (ج1 ص 321)
(في الفتح : وَرَوَى مُحَمَّدُ بْنُ نَصْرٍ مِنْ طَرِيقِ دَاوُدَ بْنِ قَيْسٍ قَالَ أَدْرَكْتُ النَّاسَ فِي إِمَارَةِ أَبَانَ بْنِ عُثْمَانَ وَعُمْرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ يَعْنِي بِالْمَدِينَةِ يَقُومُونَ بِسِتٍّ وَثَلَاثِينَ رَكْعَةً وَيُوتِرُونَ بِثَلَاثٍ وَقَالَ مَالِكٌ هُوَ الْأَمْرُ الْقَدِيمُ عِنْدَنَا وَعَنِ الزَّعْفَرَانِيِّ عَنِ الشَّافِعِيِّ رَأَيْتُ النَّاسَ يَقُومُونَ بِالْمَدِينَةِ بِتِسْعٍ وَثَلَاثِينَ وَبِمَكَّةَ بِثَلَاثٍ وَعِشْرِينَ وَلَيْسَ فِي شَيْءٍ مِنْ ذَلِكَ ضِيقٌ وَعَنْهُ قَالَ إِنْ أَطَالُوا الْقِيَامَ وَأَقَلُّوا السُّجُودَ فَحَسَنٌ وَإِنْ أَكْثَرُوا السُّجُودَ وَأَخَفُّوا الْقِرَاءَةَ فَحَسَنٌ وَالْأَوَّلُ أَحَبُّ إِلَيَّ )
(ج 4 ص 253)
”اورحافظ نےفتح الباری میں فرمایا:”اور محمد بن نصر نے داؤد بن قیس کے طریق سے روایت کی انہوں نے فرمایا کہ میں نے لوگوں کوابان بن عثمان اورعمر ابن عبدالعزیز کی(مدینہ میں) امارت کے زمانہ میں پایا کہ وہ چھتیس رکعت قیام کرتے تھے اور تین وتر پڑھتے تھے اور مالک نے فرمایا کہ یہ ہمارے ہاں قدیم دستور ہے اور زعفرانی نےشافعی سے بیان کیا کہ میں نے لوگوں کو مدینہ میں دیکھا کہ انتالیس رکعت قیام کرتے تھے اور مکہ میں تئیس رکعت اور ان میں سے کسی میں بھی مضائقہ نہیں اورشافعی سے ہی روایات ہے کہ انہوں نے فرمایا:اگر قیام طویل کردیں اورسجود کی تعداد کم کم کردیں تو اچھا ہے اور سجود زیادہ کریں اورقراءۃ ہلکی کردیں تو بھی اچھا ہے اورپہلی بات مجھے زیادہ محبوب ہے“۔ اھ (ج 4 ص 253)
|