نے قیام کے وقت میں لوگوں کی رہنمائی افضل وقت کی طرف فرمائی یہ کہہ کرکہ جس وقت میں یہ لوگ سوجاتے ہیں وہ اس سےافضل ہے جس میں قیام کرتے ہیں یعنی رات کا آخری حصہ اورلوگ رات کےشروع حصہ میں قیام کرتے تھے اور قیام کی کیفیت میں بھی افضل کی طرف رہنمائی کی کہ ان لوگوں کو ایک قاری پر جمع کردوں تو افضل ہوتو قیام کی تعداد میں بھی حضرت عمررضی اللہ عنہ ان کی رہنمائی افضل کی طرف ہی کرسکتے تھے۔ اسی لیے انہوں نے ابی بن کعب اور تمیم داری کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو گیارہ رکعت قیام کروائیں اور قاری سوسوآیات کی سورتیں پڑھتا اورلوگ طویل قیام کی وجہ سے لاٹھیوں کا سہارا لے کر کھڑے ہوتے اور فجر کے قریب جا کر ہی فارغ ہوتے تھے اور قیام میں یہ تعداد اس لیے افضل ہے کہ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے اور معلوم ہے کہ سب طریقوں سے بہتر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تین آدمیوں کو فرمایا جنھوں نے آپ کی عبادت کو کم سمجھا تھا کہ کیا تم وہ لوگ ہو جنھوں نے ایسی ایسی باتیں کی ہیں یاد رکھو!اللہ کی قسم !یقیناً میں تم سب سے زیادہ اللہ کی خشیت رکھنے والا اور تم سب سے زیادہ اللہ کاتقویٰ رکھنے والا ہوں۔ الخ۔ یہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ جو عمل آپ کی سنت اور طریقے کے مطابق ہوخواہ کم ہی ہو اس عمل سے افضل ہے جو آپ کی سنت اور طریقے کے مخالف ہو خواہ وہ زیادہ ہی ہوتو گیارہ یاتیرہ رکعت قیام اگرچہ بظاہر نظر کم ہے تئیس اورچھتیس رکعت قیام سے اٖفضل ہے اگرچہ ظاہر دیکھنے میں وہ زیادہ ہی ہے کیونکہ پہلی تعداد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق ہے اور دوسری اس کے مخالف ہے اور یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ نفل نماز میں قیام اور قراءت کا طویل ہونا رکوع سجود کی کثرت سے افضل ہے یہ ابوحنیفہ، ابویوسف اور محمد کامذہب ہے اور شافعی کا قول بھی یہی ہے طحاوی نے شرح معانی الآثار میں فرمایا:”جو لوگ
|