بَعْدَ هَذَا الْحَدِيثِ فِي الْبَابِ وَالثَّانِي قَرِيبٌ مِنْهُ وَالِاخْتِلَافُ فِيمَا زَادَ عَنِ الْعِشْرِينَ رَاجِعٌ إِلَى الِاخْتِلَافِ فِي الْوِتْرِ وَكَأَنَّهُ كَانَ تَارَةً يُوتِرُ بِوَاحِدَةٍ وَتَارَةً بِثَلاَثٍ)اھ(فتح الباری ج4 ص 253)
”اور ان روایات میں مختلف احوال کا لحاظ رکھتے ہوئے تطبیق ممکن ہے اور احتمال ہے کہ یہ اختلاف قراءۃ کو طویل اور کم کرنے کے اعتبار سے ہوتو جب قراءۃ لمبی ہوتو رکعات کم ہوں اور اس کے برعکس قراءۃ ہلکی ہوتو رکعات زیادہ ہوں۔ داؤدی وغیرہ نے اسی کو یقین کےساتھ بیان کیا ہےاور پہلی تعداد(گیارہ) حضرت عائشہ کی اس حدیث کے موافق ہے جو اس حدیث کے بعدباب میں ذکر ہوئی ہے اور دوسری(تیرہ) اس سےقریب ہے اور بیس سےزائد کا اختلاف، وتر کے مختلف ہونے کی وجہ سے ہے ایسامعلوم ہوتا ہے کہ کبھی ایک وتر پڑھ جاتا تھا کبھی تین“۔ انتہیٰ(فتح الباری ج4 ص 253)
(اقول :ويؤيد ما جزم به الداودي وغيره ما ذكره صاحب ٓٓآثار السنن في الباب التراويح باكثر من ثمان ركعات عن داود بن الحصين، أنه سمع الأعرج يقول: ما أدركت الناس إلا وهم يلعنون الكفرة في رمضان قال:وكان القارىء يقرأُ بسورةِ البقرةِ في ثماني ركعات، فإذا قام بها في اثنتي عشرةَ ركعةً رأى الناسُ أنه قد خَفَّف اه.رواه مالك واسناده صحيح)
”میں کہتا ہوں:داؤدی وغیرہ نے جو بات یقین سےکہی ہے اس کی تائید اس اثر سے بھی ہوتی ہے جوصاحب آثار السنن نے آٹھ رکعت سے زیادہ تراویح کے باب میں داؤد بن حصین سے بیان کیا ہے کہ انہوں نے اعرج سے سنا وہ فرماتے تھے میں نے لوگوں کو اسی حال پر پایا کہ وہ رمضان میں
|