المؤلف کی خدمت میں التماس ہے کہ وہ برائے مہربانی اس مذکور تطبیق کی کوئی دلیل بیان فرمائیں۔
5۔ وخامسا: حضرت المؤلف کی عبارت بتلا رہی ہے کہ مذکور تطبیق احتمال پر مبنی ہے کیونکہ وہ فرماتے ہیں۔ ”اس کے ساتھ تطبیق کی یہ صورت بھی لکھی ہے کہ پہلے گیارہ کا حکم دیا ہو پھر قیام میں تخفیف کے لیے گیارہ کی بجائے اکیس رکعتیں کر دی گئی ہوں“تو ان کے الفاظ ”حکم دیا ہو“اور”کردی گئی ہوں“پر غور کرنے سے مذکور تطبیق کا مبنی براحتمال ہونا خود بخود واضح ہو جاتا ہے پھر حافظ ابن عبدالبر کے الفاظ(ويحتمل أن يكون ذلك أولاً ثم خفف عنهم طول القيام، ونقلهم إلى إحدى وعشرين، إلا أن الأغلب عندي أن قوله : إحدى عشرة وهم، انتهى)(احتمال ہے کہ یہ پہلے ہو پھر ان سے لمبے قیام میں تخفیف کردی ہو اور انہیں اکیس کی طرف منتقل کردیا ہو) علامہ زرقانی کے الفاظ (ولا وهم مع أن الجمع بالاحتمال الذي ذكره قريب) (اوروہم بالکل نہیں کیونکہ مذکورہ احتمال کے ساتھ تطبیق ممکن ہے)اور علامہ عینی کے شیخ مکرم کےالفاظ: (لَعَلَّ هَذَا كَانَ من فعل عمر أَولا، ثمَّ نقلهم إِلَى ثَلَاث وَعشْرين) (شاید حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ فعل پہلے ہو پھر آپ نے انہیں تیئس کی طرف منتقل کردیا ہو بھی حضرت المؤلف وغیرہ کی نقل کردہ تطبیق کے احتمالی ہونے پر صراحۃً دلالت کر رہے ہیں۔
6۔ وسادساً: اگر احتمالی تطبیق ہی کو اختیار کرنا ہے تو پھر احتمالی تطبیقات اور بھی ہیں ان میں سے کسی کو اختیار کیا جاسکتا ہے چنانچہ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
(وَالْجَمْعُ بَيْنَ هَذِهِ الرِّوَايَاتِ مُمْكِنٌ بِاخْتِلَافِ الْأَحْوَالِ وَيُحْتَمَلُ أَنَّ ذَلِكَ الِاخْتِلَافَ بِحَسَبِ تَطْوِيلِ الْقِرَاءَةِ وَتَخْفِيفِهَا فَحَيْثُ يُطِيلُ الْقِرَاءَةَ تَقِلُّ الرَّكَعَاتُ وَبِالْعَكْسِ وَبِذَلِكَ جَزَمَ الدَّاوُدِيُّ وَغَيْرُهُ وَالْعَدَدُ الْأَوَّلُ مُوَافِقٌ لِحَدِيثِ عَائِشَةَ الْمَذْكُورِ
|