Maktaba Wahhabi

461 - 896
تسمع رجلاً أفضل منه يُجيب بغير جوابه تأخذ بما أجاب به الافضل بدون تأمل ولا تركن الى قول المفضول اصلا، هذا وهذا هو الأخذ بالراجح من حيث لا تذريه 1ھ) (المقدمة ص 52) ”اور جان کہ جب دو حدیثوں کے درمیان تعارض سامنے آئے تو اس کا حکم ہمارے نزدیک یہ ہے کہ پہلے اسے نسخ پر محمول کیا جائے چنانچہ ایک ناسخ بنا دیا جائے اور دوسری کو منسوخ پھر نسخ سے اتر کر ترجیح کی طرف رخ کیا جائے اگر ایک حدیث کی دوسری پر ترجیح کی وجہ ظاہر نہ ہو تو تطبیق کی راہ اختیار کی جائے اگر ممکن ہو تو بہتر ورنہ دونوں کو ساقط سمجھا جائے۔ تعارض کی صورت میں ہمارے نزدیک یہی ترتیب ہے جیسا کہ التحریر میں ہے اور شافعیہ کے نزدیک پہلے تطبیق سے ابتداء کی جائے گی پھر نسخ پھر ترجیح اور پھر تساقط۔ میں کہتا ہوں شافعیہ نے جو طریقہ اختیار کیا ہے بادی النظر میں اچھی رائے ہے لیکن گہری نظر سے معلوم ہوتا ہے کہ ہماری رائے اولی ہے کیونکہ تطبیق اور تساقط کے درمیان ترتیب ظاہر ہے کیونکہ تساقط ہوتا ہی اسی وقت ہے جب تطبیق نا ممکن ہو جب تک تطبیق ممکن ہو تساقط کا کوئی مطلب نہیں۔ اسی طرح تطبیق پر ترجیح کا مقدم ہونا بھی واضح ہے کیونکہ راجح بات کو اخذ کرنا ایسی چیز ہے جس پر انسان پیدا کیا گیا ہے چنانچہ یہ اس کی فطرت میں رکھ دی گئی ہے۔ آپ دیکھتے نہیں کہ جب آپ کو کوئی آدمی کسی مسئلہ میں کوئی فتویٰ دے پھر آپ کو کسی ایسے آدمی سے جو پہلے سے افضل ہو اس مسئلہ میں پہلے شخص کے فتویٰ کے علاوہ کوئی فتویٰ سنیں تو آپ بلا تامل اس فتویٰ کو اخذ کریں گے جو افضل نے دیا ہے اور مفضول کے قول کی طرف مائل نہیں ہوں گے اور یہی چیز راجح کو اخذ کرنا ہے اور جو ہم نہ جانتے ہوئے بھی کرتے ہیں۔ “(مقدمۃ ص52)
Flag Counter