کثرت صحبت میں بھی یہ دونوں محمد بن یوسف کے برابر ہیں مگر مروی عنہ سے رشتہ داری والی وجہ ترجیح سے تو یہ دونوں بہر حال محروم ہیں نیز یزید وحارث سے نیچے کے سب راوی محمد بن یوسف سے نیچے کے سب راویوں کے ہم پلہ نہیں ہیں کما تقدم تو اصول حدیث کے لحاظ سے محمد بن یوسف کی روایت راجح اور یزید و حارث کی روایت مرجوح ہے اور بقول حضرت المولف ”اصول حدیث کو پیش نظر رکھنا ہر ذی علم پر لازم ہے“پھر محمد بن یوسف کی روایت راجح ہونے کی اور وجوہ بھی ہیں جیسا کہ ترجیح کی پچاس سے زائد وجوہ پر غور و فکر کرنے سے ظاہر ہے۔
3۔ وثالثاً:حنفیہ کے نزدیک ترجیح تطبیق سے مقدم ہے لہٰذا ترجیح کی کسی صورت مقبولہ کے ہوتے ہوئے ان کے ہاں تطبیق کی طرف رجوع نہیں کیا جاتا چنانچہ صاحب فیض الباری تحریر فرماتے ہیں:
(واعلم ان الحديثين اذا لاح بينهما تعارض فحكمه عندنا ان يحمل اولا على النسخ فيُجْعل أحدُهما ناسخاً والآخرُ منسوخاً، ثم يُتَنَزَّل إلى الترجيح، فإن لم يظهر وجه ترجيح احدهما على الآخر، يُصار إلى التطبيق، فإن أمكن، فبها، وإلا فإلى التساقط، هذا هو الترتيب عند التعارض عندنا كما في التحرير وعند الشافعية يبدأ اولا بالتطبيق ثم بالنسخ ثم بالترجيح ثم بالتساق قلت وما اختاره الشافعة راي حسن في بادي الںظر وما يظهر بعد التعمق هو ان ما ذهبنا اليه اولي لان الترتيب بين التطبيق والتساقط ظاهر فان التساقط انما هو عند تعذر التطبيـق وما دام امكن الجمع لا معنى للتساقط وكذا تقديم الترجيح على التطبيق ايضا واضح فإنّ الأخذ بالراجح مما جُبل عليه الإنسان، فهو مُودَع في فطرته، ألا ترى أنك إذا سمعت رجلاً أفتاك في مسألة بجواب، ثم
|