اپنے اوثق رواۃ کی مخالفت بھی کررہا ہے تو اصول حدیث کی رو سے اس کی روایت مرجوح ہوگی اور” اصول حدیث کو پیش نظر رکھنا ہرذی علم پرلازم ہے“ اگر کہا جائے کہ حافظ عبدالرزاق کی کتاب مصنف سے پتہ چلتا ہے کہ داؤد بن قیس کا متابع بھی موجود ہے کیونکہ وہاں لفظ ہیں(داود بن قيس وغيره)تو جواباً عرض ہے کہ یہ غیرہ مبہم اور مجہول ہے۔ (لَا يُدْريٰ مَنْ هُوَ)۔
اس لیے متابعت کا کوئی اعتبار نہیں دیکھئے حضرت المولف نے بھی اس غیرہ کو درخوراعتناء نہیں سمجھا ورنہ وہ فرماتے”محمد بن یوسف کے کم از کم چھ شاگرد ہیں الخ“ تو ان کے بیان” اور محمد بن یوسف کے پانچ شاگرد ہیں اور ان پانچوں کے الخ“ سے واضح ہے کہ اس غیرہ کا ان کو بھی کوئی اتہ پتہ نہیں پھر داؤد بن قیس کے بیان کےمحمد بن یوسف کے دیگر شاگردوں کے بیانات کے مخالف ہونے کا حضرت المولف کو بھی اعتراف ہے اوراقرار ہے جیسا کہ ان کے دئیے ہوئے نقشہ سے صاف صاف ظاہر ہے۔
2۔ وثانیاً: پہلے تو محمد بن یوسف کے پانچ شاگردوں کے بیانات میں ترجیح پر بات ہو رہی تھی جو اس نتیجہ پر پہنچی کہ امام مالک، یحییٰ بن سعید اور عبدالعزیز بن محمد کا بیان ”گیارہ رکعات“راجح اورداؤد بن قیس کا بیان”اکیس رکعات“ مرجوح ہے رہی حضرت سائب بن یزید کے تین شاگردوں محمد بن یوسف، یزید بن خصیفہ اور حارث بن عبدالرحمان کے بیانات میں ترجیح تو اس مقام پر محمد بن یوسف کابیان راجح کیونکہ وہ یزید بن خصیفہ اورحارث بن عبدالرحمان سے اوثق ہے اس لیے کہ حضرت المولف نے بذات خود محمد بن یوسف کی توثیق میں(ثقة ثبت) دو لفظ نقل فرمائے ہیں۔ اور یزید بن خصیفہ کی توثیق میں(ثقة) صرف ایک ہی لفظ نقل فرمایا ہے اور شرح نخبہ میں ہے:
(ومن المهم -أيضا- معرفة مراتب التعديل، وأرفعها : الوصف -أيضا-
|