Maktaba Wahhabi

454 - 896
لوگ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کےعہد میں بیس رکعتیں قیام کرتے تھے اور یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ سند تو اس(گیارہ) کی بھی صحیح ہے جواب یہ دیاجائے گا کہ شاید انہوں نے بعض راتوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تشبیہ کاارادہ کیا ہوکیونکہ آپ سے ثابت ہے کہ آپ نے لوگوں کو آٹھ رکعت اور وتر پڑھائے۔ اگرچہ ان کامعاملہ بیس پر آٹھرا اورتئیس رکعت والی روایت میں راوی نے تین وتر بھی شمار کرلیے کیونکہ آیا ہے کہ لوگ تین وتر پڑھتے تھے یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آخر میں معاملہ اسی بات پر آٹھہرا کہ وتر تین ہیں اور وہ صلاۃ اللیل میں داخل نہیں انتہیٰ(ج 3 ص 192) اورصاحب تحفۃ الاحوذی نے ابن عبدالبر کے قول (میرے نزدیک غالب یہ ہے کہ مالک کا قول گیارہ رکعت وہم ہے) پر زرقانی اور نیموی کا ردنقل کرنے کے بعد فرمایا۔ صاحب تحفۃ کی بلقطہ عبارت کا ترجمہ تو جب ثابت ہوگیا کہ مالک اپنے قول گیارہ رکعت میں اکیلے نہیں بلکہ اس لفظ پر ان کی متابعت عبدالعزیز نے کی ہے اور وہ ثقہ ہیں اورجرح وتعدیل کے امام یحییٰ بن سعیدقطان نے بھی متابعت کی ہے جن کے متعلق حافظ نے تقریب میں فرمایا” ثقہ متقن، حافظ، امام“ تو تمہارے لیے روز روشن کی طرح واضح ہوگیاکہ ابن عبدالبر کاقول“ کہ میرے نزدیک زیادہ غالب یہ ہے کہ مالک کا قول گیارہ رکعت وہم ہے صحیح نہیں بلکہ اگرتم تدبر کروگے تو تمھیں ظاہرہوجائے گا کہ اصل معاملہ اس بات کے برعکس ہے جو ابن عبدالبر نے کہی ہے میرا مطلب یہ ہے کہ اس اثر میں مالک کے غیر کا قول اکیس رکعت جیساکہ عبدالرزاق کی روایت میں ہے وہم ہے کیونکہ اس اثر کو ان لفظوں کے ساتھ روایت کرنے میں صرف عبدالرزاق اکیلا ہے اور جہاں تک مجھے معلوم ہے اس کے علاوہ کسی نے اسے ان لفظوں میں روایت نہیں کیا اور عبدالرزاق اگرچہ ثقہ اور حافظ ہیں مگر وہ آخر میں نابینا ہوگئے تو متغیر ہوگئے جیسا کہ حافظ نے
Flag Counter