النسائي ما عندي بعد التابعين انبل من مالك ولا أجل منه ولا أوثق ولا آمن علي الحديث منه الخ۔ (ج10ص 7، 8، 9)
1۔ ترجمه:اولا:زرقانی نے موطا کی شرح میں فرمایا: ( أَنْ يَقُومَا لِلنَّاسِ بِإِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً) باجی نے فرمایا کہ شاید حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ تعداد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز سے لی ہو کیونکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کی حدیث میں ہے کہ ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رمضان میں نماز پوچھی گئی توانہوں نے فرمایا آپ رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے اور ابن عبدالبر نے فرمایا کہ مالک کے علاوہ دوسرے راویوں نے اس حدیث میں اکیس رکعتیں روایت کیں اور یہی صحیح ہے اور مجھے مالک کے علاوہ کوئی شخص معلوم نہیں جس نےگیارہ روایت کی ہوں اور یہ بھی احتمال ہے کہ پہلے گیارہ ہی ہوں پھر لوگوں سے لمبے قیام میں تخفیف کردی گئی ہو اور انہیں اکیس رکعتوں کی طرف منتقل کردیا ہو۔ مگر میرے نزدیک زیادہ غالب یہی ہے کہ گیارہ رکعت وہم ہے۔ انتہیٰ۔ اورجب اس احتمال کے ساتھ تطبیق بالکل آسان ہے جو ابن عبدالبر نے بیان کیاتو یہ لفظ وہم نہیں ہے اور بیہقی نے بھی یہی تطبیق دی ہے اور اس نے جو یہ کہاکہ مالک اس میں اکیلے ہیں تو یہ بات اس طرح نہیں جس طرح انہوں نے فرمائی کیونکہ سعید بن منصور نے ایک دوسری سند کے ساتھ محمد بن یوسف سے روایت کی ہے اور فرمایا” گیارہ رکعتیں“ جس طرح مالک نے فرمایا اھ(ج1 ص 239) اور صاحب آثار السنن نے فرمایا کہ ابن عبدالبر نے جو مالک کا وہم قراردیا ہے بالکل غلط ہے کیونکہ مالک کی متابعت عبدالعزیز بن محمد نے کی ہے۔ آخر عبارت تک جو اس سے پہلے ہم نے التعلیق الحسن سے نقل کی ہےاور ملا علی قاری نے مرقاۃ میں فرمایا کہ (بِإِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً) یعنی شروع شروع میں(گیارہ رکعتیں تھیں) جیسا کہ ابن عبدالبرنےکہا کہ یہ روایت وہم ہے اور ثابت یہی ہے کہ
|