لہٰذا مصنف صاحب کا فرمان”پس اصول حدیث کی رو سے یہ روایت مضطرب ہے“ درست نہیں ہاں جامع ترمذی کے بعض مقامات سے پتہ چلتا ہے کہ ترجیح اور تطبیق کی موجودگی میں بھی روایت کو مضطرب کہا جاسکتا ہے تو پھر حضرت المؤلف کا بیان” یہ روایت مضطرب ہے الخ“ درست ہوگا۔
4۔ ورابعاً: اگر امام مالک وغیرہ کی گیارہ رکعات والی روایت کو مضطرب قراردیا جائے تو پھر داؤد بن قیس کی اکیس رکعات والی روایت کو بھی مضطرب قراردینا پڑے گا کیونکہ محمد بن یوسف کے باہم مختلف بیانات والے پانچ شاگردوں میں داؤد بن قیس بھی شامل ہیں چنانچہ حضرت المؤلف کے پیش کردہ نقشہ سے صاف صاف ظاہر ہے تو جیسے صاحب رسالہ کے خیال میں بوجہ اضطراب امام مالک وغیرہ کی گیارہ رکعات والی روایت کو کسی مدعا کے ثبوت میں پیش کرنا درست نہیں ویسے ہی بوجہ اضطراب داؤد بن قیس کی اکیس رکعات والی روایت کو بھی کسی مدعا کے ثبوت میں پیش کرنا درست نہیں حالانکہ حضرت المولف نے اپنے مدعا کے ثبوت میں فرمودہ دلائل میں سے سب سے پہلے داؤد بن قیس والی روایت کو پیش فرمایا ہے اگر کہا جائے کہ صاحب رسالہ نے تو داؤد بن قیس کی روایت کو بعد از ترجیح یا تطبیق دلیل بنایا ہے تو پھر امام مالک رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ کی گیارہ رکعات والی روایت سے استدلال کرنے والے بھی کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے بھی آخر گیارہ رکعات والی روایت کو ترجیح یاتطبیق کے بعد ہی دلیل بنایا ہے رہی یہ بات کہ کون سی ترجیح یا تطبیق درست ہے تو اس پر کلام ہوگا ان شاء اللہ تعالیٰ۔
4۔ وخامساً:جس طریقہ سے حضرت المؤلف نے گیارہ رکعت والی روایت کو مضطرب بنایا اگر اس طریقہ کو اختیار کیا جائے تو کہاجاسکتا ہے کہ حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ کی بیس رکعات والی روایت بھی مضطرب ہے کیونکہ حضرت سائب بن یزید کے تین شاگردوں محمد بن یوسف، یزید بن خصیفہ اور حارث بن عبدالرحمان
|