2۔ وثانیاً: امام المحدثین امام احمد حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے رات کے ابتدائی حصہ میں تراویح ادا کرنے سے متعلق فرمایا:(سُنَّةُ الْمُسلِميْنَ أحَبُّ اِلَيَّ)انہوں نے یہ نہیں فرمایا:( سُنَّةُ الْمُسلِميْنَ أحَبُّ اِلَيَّ مَنْ الْحَدِيْثِ الصَّحِيْحِ) لہٰذا امام احمد بن حنبل کے اس قول سے صاحب رسالہ کے مدعا” تعامل سلف صحیح السند روایت سے کہیں بڑھ کرقابل اعتماد دلیل ہے“ کی تائید نہیں ہوتی۔
3۔ وثالثاً:امام المحدثین امام احمد کا عدد رکعات تراویح کے بارہ میں بیان(روي في هذا الوان) گزرچکا آپ نے پڑھا کہ امام المحدثین امام احمد نے عدد رکعات تراویح کے بارہ میں کوئی فیصلہ نہیں فرمایا تو اگر وہ بیس رکعات کو بھی سنۃ المسلمین سمجھتے ہوتے تو تراویح کے رات کے ابتدائی حصہ میں ادا کرنے کے بارہ میں دئیے ہوئے فیصلہ(سُنَّةُ الْمُسلِميْنَ أحَبُّ اِلَيَّ) کو وہ بیس رکعات کے بارے میں بھی صادر فرمادیتے تو ان کے بیس رکعات کے بارہ میں یہ فیصلہ صادر نہ فرما دیتے تو ان کے بیس رکعات کے بارہ میں یہ فیصلہ صادر نہ فرمانے بلکہ عدد رکعات تراویح سےمتعلق کوئی فیصلہ نہ دینے سے پتہ چلتا ہے کہ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک بیس رکعات وغیرہ کوئی ایک عدد معین درقیام رمضان(سُنَّةُ الْمُسلِميْنَ) نہیں ورنہ وہ اس کے حق میں فرماتے: (سُنَّةُ الْمُسلِميْنَ أحَبُّ اِلَيَّ)
4۔ ورابعاً: یہ بھی یاد رکھیں امام المحدثین امام احمد کا فرمان ہے: (سُنَّةُ الْمُسلِميْنَ أحَبُّ اِلَيَّ) ان کا یہ فرمان یہ نہیں کہ(سُنَّةُ جمهور الْمُسلِميْن واكثرهم أحَبُّ اِلَيَّ) فتدبر۔
حضرت المؤلف تحریر فرماتے ہیں:
”اور اسی طرح امام ترمذی عملی تواتر کی بنیاد پر ضعیف روایت کو صحیح روایت سے مقدم سمجھتے ہیں دیکھو ترمذی جلد 1ص 26(باب مَا جَاءَ فِي الْجَمْعِ بَيْنَ الصَّلاَتَيْنِ) (ص 22)
صاحب رسالہ کے حکم کے مطابق بندہ نے ترمذی کا مذکور باب دیکھا مگر اس
|