ہے کہ بیس رکعات پر اجماع نہیں ورنہ وہ اجماع کا دعویٰ کرتے جب کہ اجماع شرعی دلائل سے ایک دلیل ہے اور اکثریت وجمہوریت شرعی دلائل سے کوئی سی دلیل بھی نہیں تو جب صاحب رسالہ کو بھی تسلیم ہے کہ بیس رکعات پر اجماع نہیں تو پھر ان کا اس مقام پر حضرت عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ کے قول:(اجماع الناس علي شئي الخ) كو پيش فرمانا بے محل ہے ہاں اگر حضرت عبداللہ بن مبارک فرماتے(اجتماع جمهور الناس واكثرهم علي شئي الخ) تو پھر ان کا فرمان صاحب رسالہ کے لیے مفید ہوسکتا تھا مگر انہوں نے یہ تو فرمایا ہی نہیں تو اب اگر صاحب رسالہ کو حضرت عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ کے مذکور دررسالہ بیان سے بیس رکعات کو تقویت پہنچانے کا شوق ہوتو پہلے وہ بیس رکعات پر امت کا اجماع ثابت فرمائیں ودونہ خرط القتاد اور اس کے بعد ان کا بیان(اجماع الناس علي شئي الخ) پیش فرمائیں۔
حضرت المولف فرماتے ہیں:
”اسی طرح امام احمد بن حنبل (جو امام المحدثین کے لقب سے یاد کئے جاتے ہیں) کا فرمان منقول ہے:
(ثم قال أبو داود: "قيل لأحمد وأنا أسمع: يؤخِّر القيام - يعني التراويح - إلى آخر الليل؟ قَالَ لاَ سُنَّةُ الْمُسلِميْنَ أحَبُّ اِلَيَّ) (ص 22)
”ابوداؤد فرماتے ہیں امام احمد سے سوال کیا گیا اور میں سن رہاتھا کہ کیا تراویح کو رات کے آخری حصے تک مؤخر کردیاجائے فرمایا نہیں عام مسلمانوں کا طریقہ مجھے زیادہ پسند ہے“۔
1۔ اولاً: نعم البدعۃ ہذہ والے اثر میں حضرت فاروق رضی اللہ عنہ کا فرمان:
(والَّتي يَنَامُونَ عَنْهَا أفْضَلُ مِنَ الَّتي يَقُومُونَ يُرِيدُ آخِرَ اللَّيْلِ وكانَ النَّاسُ يَقُومُونَ أوَّلَهُ)
منقول ہے نیز علامہ زرقانی کی زبانی اس کی شرح پہلے لکھی جاچکی ہے ذرا اسے بھی ملاحظہ فرمائیں۔
|