Maktaba Wahhabi

433 - 896
خلاف ہونا تو دور کی بات ہے اور اگر صاحب رسالہ کے علم میں کوئی ایسا اجماع ہو جو اصح الاسانید سند سے مروی صحیح حدیث کے خلاف ہوتو اسے بیان فرمائیں بندہ ان کا ممنون ہوگا۔ 2۔ وثانیاً:بیس رکعات نماز تراویح پر اجماع نہیں چنانچہ فن حدیث کے مسلم الثبوت امام ابو عیسیٰ ترمذی کے بیان(وَاخْتَلَفَ أَهْلُ العِلْمِ فِي قِيَامِ رَمَضَانَ، فَرَأَى بَعْضُهُمْ)امام المحدثین امام احمد بن حنبل( جن کی امامت اور علمی جلالت مسلم اور اتفاقی ہے) کے بیان (روي في هذ الوان) نیز امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے عدد قیام رمضان کے بارہ میں کوئی فیصلہ نہ فرمانے، حافظ ابن عبدالبر مالکی جیسے جلیل القدر وسیع العلم امام کے قول(وهو قول جمهور العلماء) اور علامہ بدر الدین عینی رحمۃ اللہ علیہ کی مذکور تقریر: (وقد اختلف العلماء فی العدد المستحب فی قیام رمضان علی اقوال کثیرۃ...الخ) سے ظاہر ہے پھر صاحب رسالہ نے بھی متعدد مقامات پر بیس رکعات کو جمہور کا قول وعمل قراردیا ہے انہوں نے اجماع کا دعویٰ نہیں فرمایا چنانچہ وہ اپنے رسالہ کے ص 3 پر فرماتے ہیں: ”نماز تراویح کے بارے میں عہد فاروقی سے لے کر آج تک جمہور امت کا عمل بیس رکعات پر چلا آرہا ہے۔ “ ص 12 پر لکھتے ہیں:”جمہور اُمت کے اس دعویٰ کی بنیاد الخ۔ “ ص 21 پر تحریر کرتے ہیں:” نیز عہد فاروقی سے لے کر صحابہ کرام اورتابعین اور نسلاً بعد نسل عامۃ المسلمین کے وسیع پیمانہ پر تعامل الخ۔ “ اور اپنے رسالہ کے آخری صفحہ پر رقم فرماتے ہیں: ”اور ترجیح یا تطبیق کے بعد جمہور اُمت کے مدعاء پر اس سے کوئی اثر نہیں پڑسکتا۔ “ تو صاحب رسالہ کے مذکورہ بالاچار بیانات سے واضح ہے کہ انہیں بھی اعتراف واقرار
Flag Counter