Maktaba Wahhabi

432 - 896
کہیں بڑھ کرقابل اعتماد دلیل بنایا جارہا ہے جب کہ عالم یہ ہے کہ گیارہ اور تیرہ رکعات بھی تعامل سلف ہیں بلکہ خلیفہ راشد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تو گیارہ پڑھانے کا حکم بھی دیا تھا اور اس تعامل کے مقابلہ میں نہ تو کوئی صحیح السند مرفوع روایت ہے اور نہ ہی کوئی حسن السند مرفوع روایت بلکہ قطعی الصحۃ مرفوع روایت اس تعامل کی تائید کررہی ہے لہٰذا صاحب رسالہ کے قاعدہ کی رو سے تو تعامل گیارہ اورتیرہ رکعات بطریق اولیٰ تعامل سلف بیس رکعات سے کہیں بڑھ کر قابل اعتماد دلیل ہے۔ حضرت المؤلف لکھتے ہیں: ”دیکھئے حضرت عبداللہ بن مبارک جن کی امامت اور علمی جلالت مسلم اور متفق علیہ ہے فرماتے ہیں: (اِجْمَاعُ النَّاسِ عَلٰي شئیٍ اَوْثَقُ فِيْ نَفْسِيْ مِنْ سُفْيَانَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللّٰهِ رَضِيَ اللّٰه عَنْهُ...الخ) (ص 22) ”لوگوں کا کسی چیز پر اجماع ہوتو میرے دل میں اس کا اعتماد اس سند سے بھی زیادہ ہے کہ سفیان نے منصور سے بیان کیا انہوں نے ابراہیم سے، انہوں نے علقمہ سے انہوں نے ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے بیان کیا۔ “(ص 22) 1۔ اولاً:حضرت عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ کا فرمان درست مگر وہ تب ملحوظ ہوگا جب اجماع اور کسی اصح الاسانید سند سے مروی حدیث میں بظاہر تعارض ہو اور واضح بات ہے کہ اجماع کا درجہ سنت وحدیث خواہ وہ حسن ہی کیوں نہ ہو سے متاخر ہے تو پھر اصح الاسانید سند سے مروی حدیث اور اجماع کے مابین تعارض کیونکر متصور ہوسکتا ہے پھر جتنے اجماعات ہیں ان سے کوئی ایک اجماع بھی مقبول حدیث کے خلاف نہیں کسی اجماع کا اصح الاسانید سے مروی صحیح حدیث کے
Flag Counter