Maktaba Wahhabi

430 - 896
”امام احمد رحمۃ اللہ نے فرمایاکہ اس کے متعلق مختلف قسم کے اقوال روایت کیے گئے چنانچہ امام احمد نے اس کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں فرمایا۔ “ اما م احمد بن حنبل شیخ الباری وابی داؤد رحمۃ اللہ علیہ جو امام المحدثین کے لقب سے یاد کئے جاتے ہیں نے عدد رکعات قیام رمضان میں کوئی فیصلہ نہیں فرمایا تو اگر بیس رکعات عہد فاروقی سے لے کرصحابہ کرام تابعین عظام اور نسلاً بعد نسل عامۃ المسلمین کا وسیع پیمانہ پر مسلسل تعامل ہوتا تو ضرور بالضرور امام المحدثین حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ اس کے حق میں فیصلہ صادر فرماتے اور یونہی(روي في ھذا الوان) كہہ کراس مقام سے نہ گزر جاتے جب کہ تعامل سلف کا صحیح السند روایت سے کہیں بڑھ کر قابل اعتماد دلیل ہونا نہ ہونابھی آخر ان کے علم تھا تو اب صاحب رسالہ ہی فرمائیں گے کہ ان کا کوئی فیصلہ نہ فرمانا ان کی واقفیت ہے یا ناواقفیت ؟نیز امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کا کوئی فیصلہ نہ فرمانا حضرت المؤلف کے مزعوم مسلسل تعامل کو اہمیت دینا یا نہ دینا؟ پھر سوچنے کی بات یہ ہے کہ عہد فاروقی سے لے کر صحابہ کرام، تابعین عظام اور نسلاً بعد نسل عامۃ المسلمین کے وسیع پیمانہ پر مسلسل تعامل اور اس کی اہمیت کا علم امام احمد بن حنبل جیسے جلیل القدر امام المحدثین کو زیادہ اور خوب حاصل ہے یا عصر حاضر کے ان حضرات کو جو ان کی نسبت طفل مکتب ہیں۔ (سَتُبْدِي لَكَ الأيَّامُ...الخ) 8۔ وثامناً:صاحب رسالہ کا بیان”عہدفاروقی سے لے کر الخ اور ان کے دیگر بیانات سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے نزدیک بھی بیس رکعات تراویح کا عہد نبوی وعہد صدیقی میں ہونا ثابت نہیں ورنہ وہ فرماتے” عہد نبوی یا عہدصدیقی سے لے کر“ الخ البتہ گیارہ اورتیرہ رکعات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم، عہد نبوی اورعہد فاروقی سے ثابت ہیں کما تقدم۔ 9۔ وتاسعاً: رہا صاحب رسالہ کا تعامل سلف کو صحیح السند روایت سے کہیں بڑھ کرقابل اعتماد دلیل قراردینا تو وہ درست نہیں کیونکہ اصول فقہ سے تھوڑی بہت سوجھ بوجھ
Flag Counter