Maktaba Wahhabi

429 - 896
جو آرہی ہے۔ 6۔ عینی کے اس قول میں کہ”یہ نہیں کہا کہ وتر چالیس میں شامل تھے“۔ ظاہر نظرہے کیونکہ وتر طاق ہوتا ہے تو وتر کا چالیس میں شامل ہونا کس طرح تصورمیں آسکتا ہے جبکہ چالیس کا عددجفت ہے۔ فتدبر۔ وسادساً: بیس رکعات کے عہد فاروقی سے لےکر صحابہ کرام، تابعین عظام اور عامۃ المسلمین کے وسیع پیمانہ پر مسلسل تعامل ہونے نہ ہونے پر تو کلام ہوچکا رہی بیس رکعات کو اہمیت دینے نہ دینے والی بات تو اس سلسلہ میں صاحب رسالہ سے سوال ہے کہ کم وبیش قیام کرنے والے صحابہ کرام، تابعین عظام اور ائمہ دین مثلاً حضرت ابی بن کعب، حضرت تمیم داری، حضرت سائب بن یزید، حضرت زرارہ بن اوفیٰ، حضرت اسود بن یزید، حضرت ابومجلز، حضرت سعید بن جبیر، حضرت محمد بن اسحاق صاحب مغازی، حضرت اسحاق بن راہویہ شیخ بخاری، حضرت امام مالک شیخ شافعی اور اہل مدینہ بھی ان کے مزعوم مسلسل تعامل سے واقف تھے یا نہیں؟پھر واقف ہونے کی صورت میں انہوں نے اس کو اہمیت دی یا نہ دی؟نیز تعامل سلف کے صحیح السند روایت سے کہیں بڑھ کر قابل اعتماد ہونے کا ان کو علم تھا یا نہیں؟ پھر صاحب رسالہ کی خدمت میں گزارش ہے کہ لگے ہاتھوں وہ یہ بھی بتاتے جائیں آیا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے تعامل، عہد نبوی وعہد فاروقی کے تعامل گیارہ اور تیرہ رکعات اور خلیفہ راشد حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے گیارہ رکعات پڑھانے کا حکم دینے کی بھی کوئی اہمیت ہے یا نہیں؟اور جو حضرات گرامی اس تعامل کو اہمیت نہ دیں تو یہ ان کی واقفیت ہے یا ناواقفیت۔ 7۔ وسابعاً: فن حدیث کے مسلم الثبوت امام ابوعیسیٰ ترمذی جامع ترمذی میں لکھتے ہیں: (وقال أحمد: رُوي في هذا ألوان، ولم يقض فيه بشيء)
Flag Counter