Maktaba Wahhabi

428 - 896
منقول ہیں ان پر گفتگو گزر چکی ہے اسی طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں قیام کی تعداد کے بارے میں آثار میں سے جو صحیح ہیں ان کی تحقیق گزر چکی ہے وہاں دیکھئے۔ 3۔ عمدہ کے مصنف کے شیخ نے جو کہا ہے کہ دونوں حدیثوں میں وتر کو جو ایک اورتین پر محمول کیا ہے یہ صحیح ہے الخ اس پر اعتراض ہے کہ یزید بن خصیفہ کا بیس رکعت کہنااس بات کی دلیل نہیں ہوسکتی کہ محمد بن یوسف کے لفظ اکیس رکعات میں وترایک ہو کیونکہ احتمال ہےکہ تین وتر میں سےدو کو قیام رمضان کے ساتھ شامل کردیاہو اور قبل ازیں عینی نے اڑتیس والے قول میں یہی صورت اختیار کی ہے اور نہ ہی یزید کا قول اس بات کی دلیل بن سکتا ہے کہ حارث بن عبدالرحمان کے قول تئیس رکعات میں وتر تین رکعات تھے کیونکہ احتمال ہے کہ عدد میں سے کسر کوحذف کردیا گیا ہواور وتر ایک ہی رکعت ہو۔ 4۔ عینی کے شیخ کا کہنا ہے کہ شاید یہ پہلے حضرت عمر کا فعل ہوالخ بتارہا ہے کہ عینی کے شیخ کے پاس اپنے اس قول کی کوئی دلیل موجود نہیں ورنہ اس قول کاآغازشاید کے لفظ کے ساتھ نہ کرتے۔ اسی طرح جتنے لوگوں نے تطبیق دی ہے کسی نے یہ دلیل پیش نہیں کی کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پہلے تیرہ یا گیارہ کا حکم دیاتھا پھر ان کو اکیس یا تئیس کا حکم دے ددیا جیسا کہ ہم ان شاء اللہ اس کی وضاحت کریں گے۔ 5۔ یہ دعویٰ کہ حضرت ابی سے یہی(بیس رکعت) صحیح ہے۔ حضرت ابی کے متعلق درست نہیں بالفرض اگر مان لیں کہ یہ ان سے ثابت ہے تو صحابہ نے ان کی مخالفت کی ہے بلکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں گیارہ رکعت کا حکم دیا یہ سب باتیں آپ کو اس تحریر سے معلوم ہوجائیں گی جو گزر چکی ہے اور کچھ اس سے
Flag Counter