5۔ بعض کہتے ہیں اٹھائیس۔ اور یہ عدد زرارہ بن اوفیٰ سے ماہ رمضان کے پہلے دو عشروں میں بیان کیا گیا ہے اور سعید بن جبیر آخری عشرے میں اتنی رکعات پڑھتے تھے۔
6۔ بعض کہتے ہیں چوبیس اور یہی سعید بن جبیر سے مروی ہے۔
7۔ بعض کہتے ہیں بیس۔ ترمذی نے یہ قول اکثر اہل عمل سے بیان کیا ہے کیونکہ یہ حضرت عمر اور علی اور دوسرے صحابہ سے بیان کیاگیا ہے اور یہ ہمارے حنفی ساتھیوں کا قول ہے حضرت عمر کا اثر جو ہے وہ مالک نے موطا میں منقطع سند کے ساتھ بیان کیا ہے اگر تم کہو کہ عبدالرزاق نے مصنف میں داؤد بن قیس وغیرہ سے محمد بن یوسف سے بیان کیاہے انہوں نے سائب بن یزید سے بیان کیا کہ عمر بن خطاب نے رمضان میں لوگوں کو ابی بن کعب اور تمیم داری پر اکیس رکعت پر جمع کیا وہ سو سو آیتوں والی سورتوں کے ساتھ قیام کرتے تھے اور فجر کے طلوع کےقریب ہٹتے تھے۔ میں کہتا ہوں ابن عبدالبر نے کہا کہ یہ اس پر محمول ہے کہ ایک رکعت وتر کے لیے ہوتی تھی اور ابن عبدالبر نےفرمایا کہ حارث بن عبدالرحمان بن ابی ذباب نے سائب بن یزید سے روایت کی کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہد میں تئیس رکعات قیام تھا۔ ابن عبدالبر نےفرمایا کہ یہ اس پر محمول ہے کہ تین وتر تھے۔ اور ہمارے شیخ نے فرمایا کہ دونوں حدیثوں کو جس مطلب پر اب عبدالبر نے محمول کیاہے وہ صحیح ہے اس کی دلیل وہ روایت ہے جو محمد بن نصر نے یزید سے خصیفہ سے اور انہوں نے سائب بن یزید سے بیان کی ہے کہ وہ عمر رضی اللہ عنہ بن خطاب کےدور میں رمضان میں بیس رکعت قیام کرتے تھے اور جو حضرت علی کا اثر ہے وہ وکیع نے حسن بن صالح سے انہوں نے عمرو بن قیس سےانہوں نے ابو الحسناء سے انہوں نےحضرت علی رضی اللہ عنہ سے بیان کیا ہے کہ انہوں نے ایک آدمی کو حکم دیا
|