1۔ ترجمۃ: قیام رمضان میں مستحب عدد کے بارے میں علماء کے بہت سے اقوال ہیں بعض نے کہا اکتالیس، ترمذی نے فرمایا کہ بعض علماء کا خیال ہے کہ وتر سمیت اکتالیس رکعت پڑھے یہ اہل مدینہ کا قول ہے اور ان کے ہاں اسی پر عمل ہے۔ ابن عبدالبر نے استذکار میں ذکر کیا ہے کہ اسود بن یزید چالیس رکعت پڑھتے تھے اور سات وتر پڑھتے تھے انھوں نے اسی طرح ذکر کیا ہے اور یہ نہیں کہا کہ وتر چالیس میں شامل تھے۔
2۔ بعض نے کہا کہ اڑتیس رکعات پڑھے اسے محمد بن نصر نے ابن ایمن کے طریق سے مالک سے ذکر فرمایا کہ انھوں نے فرمایا کہ مستحب یہ ہے کہ لوگ رمضان میں اڑتیس رکعات قیام کریں پھر امام اور لوگ سلام پھیردیں۔ پھر امام انہیں ایک رکعت وتر پڑھائے اور یہ عمل مدینہ میں حرہ سے پہلے سے لے کر آج تک ایک سو کئی برس سے آرہا ہے۔ ابن ایمن نے مالک سے یہ روایت اسی طرح بیان کی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے وتر میں سے دو رکعتیں قیام رمضان کے ساتھ شامل کردی ہیں اور ان کا نام قیام رمضان رکھ دیا ہے ورنہ امام مالک کا مشہور مذہب تو یہ ہے کہ چھتیں رکعتیں اور تین وتر پڑھے جائیں۔ دونوں صورتوں میں کل تعداد ایک ہے۔
3۔ بعض کہتے ہیں چھتیس۔ اہل مدینہ کا اسی پر عمل ہے اور ابن وہب نے روایت کی کہ میں نے عبداللہ بن عمر سے سنا وہ نافع سے بیان فرماتے تھے کہ انہوں نے فرمایا میں نے لوگوں کو اسی حال میں پایا کہ وہ انتالیس رکعت پڑھتے تھے جن میں سے تین وترہوتے تھے۔
4۔ بعض کہتے ہیں چونتیس جیسا کہ زرارہ بن اوفی سے بیان کیا گیا ہے کہ وہ آخری عشرہ میں لوگوں کو اسی طرح پڑھایا کرتے تھے۔
|