Maktaba Wahhabi

419 - 896
صاحب نے نقل فرمایا ان تابعین نے عہد فاروقی سرے سے پایا ہی نہیں بلکہ وہ تو شہادت حضرت عمر فاروق کے بعد پیداہوئے تو پھر بیس رکعات کو عہد فاروقی سے لے کر اہل مکہ کا مسلسل تعامل کیسے قراردیا جاسکتا ہے رہے اہل کوفہ تو ان کے تعامل بیس رکعات کے عہد فاروقی میں معرض وجود میں آنے کی صاحب رسالہ نے کوئی دلیل بیان نہیں فرمائی۔ ادھر کوفہ کے رہنے والے حضرت اسود بن یزید جن کی وفات بھی 75ھ؁ میں کوفہ کے اندر ہی ہوئی چالیس رکعات پڑھتے تھے اور انہوں نے خلفاء راشدین اربعہ کا دور بھی پایا ہے کیونکہ وہ مخضرم تابعی ہیں اور 75ھ میں وفات پارہے ہیں تو حضرت اسود بن یزید کے تعامل سے اہل کوفہ کے تعامل پر بھی روشنی پڑتی ہے تو صاحب رسالہ اگر ان قرائن وشواہد کی روشنی میں اپنے دعویٰ”عہد فاروقی سے لے کر الخ پر غور فرمائیں گے تو واقفیت وناواقفیت اور اہمیت ونااہمیت والا راز ان کومعلوم ہوجائے گا ان شاء اللہ تعالیٰ نیز فن حدیث کے مسلم الثبوت امام ابوعیسیٰ ترمذی کا بیان (وَقَالَ اِسْحَاقُ: بَلْ نَخْتَارُ إحْدٰى وَأَرْبَعِينَ رَكْعَةً على مَا رُوِيَ عَنْ أبي بْنِ كَعْبٍ)”اوراسحاق نے کہا بلکہ ہم اکتالیس رکعت کو مختار سمجھتے ہیں اس کی بنا پر جو ابی بن کعب سے روایت کی گیا ہے۔ “ان كے دعویٰ مذکورہ کو روشن کرتا ہے۔ 5۔ وخامساً: چونکہ علامہ بدر الدین عینی رحمۃ اللہ علیہ کی تقریرسے بیس رکعات کے عہد فاروقی سے لے صحابہ کرام، تابعین عظام اور نسلا ً درنسلاً عامۃ المسلمین کے وسیع پیمانہ پر تعامل ہونے پر کافی روشنی پڑتی ہے اس لیے مناسب ہے کہ اس مقام پر وہ تقریر بتمامہ( مکمل) نقل کر دی جائے تاکہ حضرت المؤلف کے مذکورہ بالا دعویٰ کی حقیقت کو پہچانا جاسکے چنانچہ علامہ صاحب لکھتے ہیں: "وقد اختلف العلماء فی العدد المستحب فی قیام رمضان علی اقوال کثیرۃ: 1۔ (فَقِيلَ اِحْدٰي وَاَرْبَعُوْنَ وَقَالَ التِّرمَذِيُّ: فَرَأَى بَعْضُهُمْ: أَنْ يُصَلِّيَ
Flag Counter