3۔ وثالثاً: حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا ابی بن کعب اور تمیم داری رضی اللہ عنھما کوگیارہ رکعات پڑھانے کا حکم دینا ثابت ہے نیز عہد فاروقی میں لوگوں(جن میں صحابہ وتابعین بھی تھے) کا گیارہ اورتیرہ رکعات پڑھنا ثابت ہے لہٰذا صاحب رسالہ کا بیان ”نیز عہد فاروقی سے لے کر الخ“ محل نظر ہے۔
4۔ ورابعاً: عہد فاروقی میں اہل مدینہ کا تعامل گیارہ اور تیرہ رکعات تھا اورعہد نبوی میں بھی اہل مدینہ کا تعامل یہی تھا پھر امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے بیان”قبل یوم حرہ سے لے کر آج تک کوئی سو برس سے زائد عرصہ سے مدینہ منورہ میں انتالیس پر عمل ہورہا ہے۔ “سے پتہ چلتا ہے کہ خلفاء راشدین اربعہ کے دور کے بعد اہل مدینہ کا تعامل انتالیس رکعات ہوگیا تھا اور امام مالک کی وفات 179ھ میں ہوئی اور یوم حرہ 63ھ میں معرض وجود میں آیا توظاہر ہے کہ یوم حرم سے قبل اور بعد صحابہ کثیر تعداد میں موجود تھے کیونکہ صحابہ کرام کازمانہ ایک سو دس ہجری (110ھ) تک ہے اور تابعین تو اس دور میں بے شمار تھے تو قبل یوم حرہ سے لے کر امام مالک رحمۃ اللہ کے زمانہ تک اہل مدینہ انتالیس رکعات پڑھتے رہے پھر فن حدیث کے مسلم الثبوت امام ابوعیسیٰ ترمذی کی شہادت بھی ملاحظہ فرمائیں وہ لکھتے ہیں:
( فَرَأَى بَعْضُهُمْ: أَنْ يُصَلِّيَ إِحْدَى وَأَرْبَعِينَ رَكْعَةً مَعَ الوِتْرِ، وَهُوَ قَوْلُ أَهْلِ المَدِينَةِ وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَهُمْ بِالْمَدِينَةِ)
”تو بعض کا خیال یہ ہے کہ اکتالیس رکعات وتر سمیت پڑھے اور یہ اہل مدینہ کا قول ہے اور مدینہ میں ان کے ہاں اسی پر عمل ہے۔ “
امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کی وفات 279ھ میں ہوئی تو ان کی اس شہادت سے پتہ چلا کہ امام ترمذی کے زمانہ تک اہل مدینہ کا تعامل اکتالیس رکعات تھا تو اب صاحب رسالہ خودغور فرمائیں کہ آیا بیس رکعات عہد فاروقی سے لے کر اہل مدینہ کا مسلسل تعامل ہے یا نہیں؟اور اہل مکہ کا تعامل بیس رکعات جن تابعین کے واسطہ سے مصنف
|