انھوں نے اس حدیث کو قبول کیا ہے (تبھی تو دلیل پکڑی ہے تاویل کی ہے) اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ یہ احتمال بھی ہے کہ اس نے اس کی تاویل اس لیے کہ ہو کہ اگر اس کو صحیح فرض کیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا یہ بات نہیں کہ وہ حدیث فی الواقع اس کے نزدیک ثابت ہے۔ انتہی۔ میں کہتا ہوں کہ اس عبارت (والجواب أنّه لم يلزم من كون الخ) میں (لا)کا لفظ تدریب کے اس نسخہ میں نہیں ہے جو میرے پاس ہے تصحیح ہم نے سیاق و سباق و لحاظ کو دیکھ کر کی ہے۔ جس طرح ہم نے صاحب رسالہ کے قول(ويَأْتِيْـكَ بِالأَخْبَـارِ مَنْ لَمْ تُـزَوِّدِ) کی تصحیح بِالأَخْبَـارِ اور لَمْ تُـزَوِّدِ کے درمیان (مَنْ) کا لفظ لکھ کر کی ہے۔ فتدبر۔
تو جب پوری اُمت کے تمام مجتہدین کا کسی حدیث واثر کے موافق اجماع اس حدیث واثر کے صحیح یا حسن ہونے پر دلالت نہیں کرتا تو پھر تین چار ائمہ یا جمہور امت کا کسی حدیث واثر کے موافق قول وعمل اس حدیث واثر کے ان کے ہاں صحیح یا حسن ہونے پر کیونکر دلالت کرسکتا ہے۔
6۔ وسادساً: یہ بات درست اورمسلم کہ روایات کے صحیح وسقیم ہونے کا علم اورنقد روایات کا سلیقہ سفیان ثوری عبداللہ بن مبارک، امام شافعی اورامام ترمذی رحمہم اللہ جیسے جلیل القدر وسیع العلم ائمہ حدیث حضرات کو زیادہ اور خوب حاصل تھا نیز بندہ، صاحب رسالہ اور عصر حاضر کے علماء ان کی نسبت طفل مکتب ہیں مگر یہ بات درست ومسلم ہونے سے ہرگز ثابت نہیں ہوتا کہ محولہ بالا آثار ان جلیل القدر وسیع العلم ائمہ حدیث حضرات کے نزدیک صحیح یا حسن ہیں۔ کما ولم تقدم۔
7۔ وسابعاً: صاحب رسالہ نے اپنے مذکورہ بالا بیان میں شعر سَتُبْدِي لَكَ الأيَّامُ الخ کو عصر حاضر کے بعض علماء پر چسپاں فرمایا ہے تو اس سلسلہ میں ان کی خدمت میں گزارش ہے کہ پہلے وہ ہمارے اس تبصرہ کو شروع سے لے کرآخر تک خصوصاً
|