Maktaba Wahhabi

413 - 896
طرح ہم کہتے ہیں کہ عالم کا کسی حدیث کے مطابق عمل کرنا یا فتویٰ دینا اس عالم کا اس حدیث کو صحیح قرار دینا نہیں ہے اور اسی طرح کسی امام کا کسی حدیث کے مخالف عمل کرنا اس امام کی طرف سے اس حدیث پر یا اس کے راوی پر عیب نہیں سمجھا جائے۔ (علوم الحدیث) میں کہا ہوں ابن صلاح کےکلام میں صحت سے مرادوہ ہے جو ضعف کے مقابلہ میں ہے اس لیے اس میں صحیح اور حسن ہونا دونوں شامل ہیں پس غور کیجئے۔ “ ”اصول حدیث کو پیش نظر رکھنا ہر ذی علم پر لازم ہے“لہٰذا مذکورہ بالا بزرگوں اور اکثر اہل علم کے قول”بیس رکعات“سے ثابت کرنا کہ محولہ بالا آثار ان کے نزدیک صحیح یا حسن ہیں درست نہیں اسی سلسلہ میں مزید تفصیل سے سنئے تدریب شرح تقریب میں لکھا ہے: (وعمل العالم وفتياه على وفق حديث رواه ليس حكما منه بصحته ولا بتعديل رواته لإمكان أن يكون ذلك منه احتياطا أو لدليل آخر وافق ذلك الخبر وصحح الآمدي وغيره من الأصوليين أنه حكم بذلك. وقال إمام الحرمين: إن لم يكن في مسالك الاحتياط وفرق ابن تيمية بين أن يعمل به في الترغيب وغيره ولا مخالفته له قدح منه في صحته ولا في رواته لإمكان أن يكون ذلك لمانع من معارض أو غيره وقد روى مالك حديث الخيار ولم يعمل به لعمل أهل المدينة بخلافه ولم يكن ذلك قدحا في نافع راويه. وقال ابن كثير: في القسم الأول نظر إذا لم يكن في الباب غير ذلك الحديث وتعرض للاحتجاج به في فتياه أو حكمه أو استشهد به عند العمل بمقتضاه. قال العراقي: والجواب أنه لا يلزم من كون ذلك
Flag Counter