عیینہ نے اس سے اس کے اختلاط کے بعد سنا ہے۔ انتہی میں کہتا ہوں کہ وہ مدلس ہے حافظ نے اس کی تصریح طبقات المدلسین میں کی ہے۔ 1ھ۔
تو اس اثر کی سند میں ایک راوی عبد اللہ بن قیس تو مجہول ہے اور ایک اور راوی ابو اسحاق مختلط اور مدلس ہے جو اس اثر کو بصیغہ عن روایت کر رہا ہے مختلط اور مدلس کی روایت کا حکم ازروئے اصول حدیث پہلے بیان ہو چکا ہے۔
2۔ وثانیاً:حضرت سوید بن غفلہ کا اثر نقل کرنے کے بعد صاحب آثار السنن لکھتے ہیں (رواه البيهقي واسناده حسن) (اسے بیہقی نے روایت کیا اور اس کی سند حسن ہے) اور امام بیہقی خود فرماتے ہیں(وفي ذالك قوة) (اور اس میں قوت ہے)مگر اس اثر کے راوی ابو الخصیب سے متعلق میزان میں ہے:(زياد بن عبدالرحمان ابولخصيب تابعي بصري عن ابن عمر لا يعرف وذكره ابن حبان في الثقات) (زیاد بن عبدالرحمان ابو الخصیب تابعی بصری ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتا ہے۔ معروف نہیں اور ابن حبان نے اسے ثقات میں ذکر کیا ہے) اور اس کے بعد صاحب میزان ہی کنی کے حصہ میں لکھتے ہیں:
(أبو الخصيب عن ابن عمر. لا يدرى من هو. يقال اسمه زياد بن عبد الرحمن العبسى. تفرد عنه عقيل بن طلحة، حدیثہ فی النھی أن یجلس الرجل مکان من یقوم لہ۔
قلت: قد روی عن ابی الخصیب جعفر بن عون ایضا فلم یتفرد عنہ عقیل بن طلحۃ، وقال الحافظ في التقريب ابو الخصيب البصري مقبول من الرابعة )اه
”ابو الخصیب، ابن عمررضی اللہ عنہ سے روایت کرتا ہے پتہ نہیں چلتا کہ وہ کون ہے کہا جاتا ہے کہ اس کا نام زیاد بن عبدالرحمان العبسی ہے عقیل بن طلحہ ان سے وہ روایت کرنے میں منفرد ہیں جس میں منع کیا گیا ہے کہ آدمی اس شخص کی جگہ
|