خلیفہ راشدتھے رمضان کی راتوں میں اس نماز کو باقاعدہ با جماعت مقرر کرنے کو بدعت کا نام دیا اور یہ نہیں کہا کہ یہ سنت ہے پس اس میں غور کروعلاوہ ازیں صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین نے کئی مقامات اور کئی مسائل میں شیخین کی مخالفت کی اس سے معلوم ہوا کہ انھوں نے حدیث کا مطلب یہ نہیں سمجھا کہ خلفائے راشدین جو کچھ کہیں یا کریں وہ حجت ہے اور برماوی نے اصول فقہ میں اپنی کتاب الفیہ کی شرح میں اس کلام کی خوب تحقیق کی ہے ساتھ ہی انھوں نے فرمایا ہے کہ پہلی حدیث تو صرف اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ خلفاء اربعہ جب کسی قول پر متفق ہوں تو وہ حجۃ ہے یہ نہیں کہ ان میں سے کوئی منفرد ہو تو وہ بھی حجت ہے اور تحقیق یہ ہے کہ اقتداء بعینہ تقلید نہیں بلکہ اس سے الگ چیز ہے جیسا کہ ہم نے نظم الکافل کی شرح میں بحث اجماع میں اس کی تحقیق کی ہے۔ “(جلد 2ص10، 11)
(أقو]ل: أن قول البيهقي: تفرد به المغيرة بن زياد الخ قد وقع في سبل السلام هكذا: تفرد به المغيرة بن دياب الخ وأنما صححناه نحن من كتاب البيهقي وأعلم أن صاحب الجوهر النقي قال:ثم ذكر حديثا في سنده المغيرۃ بن زياد فقال ليس بالقوي قلت:ضعفه في باب ترك القصر وقال في باب خل الخمر:صاحب مناكير۔ وقد وثقه ابن معين وجماعة فلم يذكر البيهقي شئيا من الك۔ اه وفيه أنه لا اعتراض علي البيهقي في عدم ذكره شيئاً من ذالك لانه لم يلتزم في هذا الكتاب استعياب اقوال جميع المعدلين والجار حين الواردة في راو وماذكره البيهقي هنا في المغيرۃ بن زياد انما هو رايه في فلو كان أبن التركماني قال ان البيهقي قد خالف رايه هذا فوثق المغيرۃ بن زياد في باب
|