شکل میں تھے کچھ اکیلے پڑھ رہے تھےاور کچھ جماعت کے ساتھ جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں لوگوں کا معمول تھا اور سب سے بہتر وہ کام ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں تھا۔
رہ گیا اس کا نام تراویح رکھنا تو اس کی وجہ وہ حدیث ہے جو بیہقی نے روایت کی کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو چار رکعت پڑھتےپھر کچھ آرام فرماتے تو آپ نے اتنی لمبی نماز پڑھی کہ مجھے آپ پر رحم آنے لگا۔ الحدیث۔ بیہقی نے کہا اس حدیث کو بیان کرنے میں مغیرہ بن زیادمنفرد(اکیلا) ہے اور وہ قوی نہیں اگر یہ ثابت ہو جائے تو تراویح کے وقفے میں امام کے آرام کے بارے میں یہ حدیث اصلی دلیل ہوگی۔ انتہی۔ باقی رہی یہ حدیث کہ تم میرے بعد میری اور خلفائے راشدین کی سنت کو لازم پکڑو اسے مضبوطی سے تھامو اور اسے ڈاڑھوں کے ساتھ مضبوط پکڑو۔
اسے احمد، ابو داؤد، ابن ماجہ، ترمذی نے روایت کیا اور حاکم نے اسے صحیح کہا اور فرمایا کہ یہ شیخین کی شرط پر ہے اور اس کی ہم مثل یہ حدیث ہے کہ ان دونوں کی اقتداء کرو جو میرے بعد ہیں یعنی ابو بکرو عمر۔ اسے ترمذی نے روایت کیا اور کہا کہ یہ حسن ہے اور احمد، ابن ماجہ اور ابن حبان نے اس کو نکالا اور اس کی کئی سندیں ہیں جن پر آئمہ کو کچھ کلام ہے مگر وہ ایک دوسری کوقوت دیتی ہیں تو خلفاء راشدین کی سنت سے مراد صرف ان کاوہ طریقہ ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کے مطابق ہو جیسا کہ دشمنوں سے جہاد شعائر دین کو قوت دینا اور اس جیسے دوسرے کام۔ کیونکہ حدیث ہر نیک خلیفہ کے لیے عام ہے صرف شیخین کے لیے نہیں اور شریعت کے قواعد سے معلوم ہے کہ کسی خلیفہ راشد کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ کوئی ایسا طریقہ مقرر کرے جو اس طریقے کے خلاف ہو جس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ پھر خود حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جو
|