Maktaba Wahhabi

390 - 896
بیس رکعت اور وتر پڑھتے تھے۔ سبیل الرشاد میں فرمایا کہ ابو شیبہ کو احمد، ابن معین، بخاری، مسلم، ابو داؤد، ترمذی، نسائی اور ان کے علاوہ دیگر محدثین نے ضعیف قراردیا۔ شعبہ نے اسے جھوٹا کہا اور ابن معین نے کہا ثقہ نہیں اور یہ حدیث اس کی منکر حدیثوں میں شمار کی۔ اور اذرعی نے متوسط میں فرمایا کہ جو نقل کیا گیا ہے۔ ”کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جن دو راتوں میں نکلے تھے ان میں آپ نے بیس رکعتیں پرھیں“وہ منکر ہے اور زرکشی نے خادم میں کہا کہ یہ دعویٰ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو اس رات بیس رکعتیں پڑھائیں درست نہیں بلکہ صحیح میں صرف آپ کی نماز عدد کے ذکر کے بغیر ثابت ہے اور جابر کی جو روایت ہے کہ آپ نے انہیں آٹھ رکعت اور وتر پڑھائے پھر لوگوں نے آئندہ رات آپ کا انتظار کیا توآپ نہیں نکلے یہ روایت ابن خزیمہ اور ابن حبان نے اپنی صحیح میں بیان کی ہے انتہی اور اس کا قول کہ بیہقی نے ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت بیان کی الی قولہ کہا اور اس میں قوت ہے یہ حصہ پہلے نقل کیا جا چکا ہے اس لیے یہاں ذکر نہیں کیا گیا۔ جب تم نے یہ جان لیا تو معلوم ہو گیا کہ بیس کے متعلق کوئی مرفوع روایت نہیں بلکہ عن قریب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی متفق علیہ حدیث آرہی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے تو اس ساری بحث سے معلوم ہو گیا کہ صلاۃ تراویح اس انداز پر جس پر اکثر لوگ متفق ہو چکے ہیں بدعت ہے۔ ہاں قیام رمضان بلا خلاف سنت ہے اور ان نوافل میں جماعت کا انکار بھی نہیں کیا جا سکتا اور ابن عباس رضی اللہ عنہ وغیرہ نے صلاۃ اللیل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں نماز پڑھی لیکن اس کیفیت اور کمیت کو اور اس کی باقاعدگی سے ادائیگی کو سنت قراردے دینے کو ہم کہتے ہیں کہ یہ بدعت ہے اور دیکھئے خود حضرت عمر رضی اللہ عنہ پہلے جب نکلےہیں تو لوگ ٹولیوں کی
Flag Counter