اسی طرح تھا اور ابو بکر کی خلافت میں اور عمر کی خلافت کے شروع میں بھی اسی طرح تھا۔ بیہقی کے ہاں ایک روایت میں یہ لفظ زائد ہیں کہ عروہ نے کہا”تو مجھے عبدالرحمان قاری نے خبردی کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ایک رات نکلے ماہ رمضان میں مسجد میں چکر لگایا اور مسجد میں لوگ ٹولیوں کی شکل میں جدا جدا تقسیم ہو چکے تھے۔ کوئی آدمی اکیلا نماز پڑھ رہا تھا کسی کی نماز کے ساتھ (اقتداء میں) ایک گروہ نماز پڑھ رہا تھا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اللہ کی قسم!میرا خیال یہ ہے کہ اگر ہم انہیں ایک قاری پر جمع کردیں(تو بہتر ہے) تو ابی ابن کعب رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ انہیں قیام کروائیں پھر ایک دفعہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نکلے جب کہ لوگ ان کی اقتداء میں نماز پڑھ رہے تھے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا :یہ بدعت اچھی ہے اور بیہقی نے اپنی سنن میں اس مفہوم کی کئی احادیث ذکر فرمائیں۔
اور جان کہ آپ کے اس قول کو یہ بدعت ہے صرف اسی معنی پر محمول کیا جائے گا کہ اس سے مراد لوگوں کو ایک امام پر جمع کرنا اور ان پر یہ چیزلازم کرنا ہے آپ کا یہ مطلب نہیں کہ جماعت بدعت ہے کیونکہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں جماعت کروائی جیسا کہ آپ کو معلوم ہو چکا ہے جب تم یہ جان چکے تو تمہیں یہ بھی معلوم ہو گیا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ہی اسے ایک مقرر کردہ امام کے ساتھ جماعت کی صورت دی اور اس کا نام بدعت رکھا اور آپ کا یہ قول کہ یہ اچھی بدعت ہے تو بدعت کوئی بھی قابل تعریف نہیں بلکہ ہر بدعت گمراہی ہے۔
اور رہی کمیت (تعداد) اور اسے بیس رکعت قراردینا تو اس کے بارے میں کوئی مرفوع حدیث نہیں ہے سوائے اس کے جو عبد بن حمید اور طبرانی نے ابو شیبہ ابراہیم بن عثمان کے طریق سے روایت کی ہے کہ وہ حکم سے روایت کرتے ہیں وہ مقسم سے وہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں
|