Maktaba Wahhabi

388 - 896
قواعد الشريعة أن ليس لخليفة راشد أن يشرع طريقة غير ما كان عليها النبي صَلّى اللّٰه عَلَيْهِ وَسَلّم ثم عمر رضي اللّٰه عنه نفسه الخليفة الراشد سمي ما رآه من تجميع صلاته ليالي رمضان بدعة ولم يقل: إنها سنة فتأمل على أن الصحابة رضي اللّٰه عنهم خالفوا الشيخين في مواضع ومسائل، فدل أنه لم يحملوا الحديث على أن ما قالوه وفعلوه حُجَّة، وقد حقق البرماوي الكلام في شرح ألفيته في أصول الفقه مع أنه قال: إنما الحديث الأول يدل أنه إذا اتفق الخلفاء الأربعة على قول كان حُجَّة لا إذا انفرد واحد منهم والتحقيق أن الاقتداء ليس هو التقليد بل هو غيره كما حققناه في شرح نظم الكافل في بحث الإجماع. (ج2ص10، 11) ”اور جان لے کہ جو لوگ صلاۃ تراویح کو ثابت سمجھتے ہیں اور اسے قیام رمضان میں سنت سمجھتے ہیں وہ اس مقصد کے لیے اس حدیث سے استدلال کرتے ہیں حالانکہ اس حدیث میں نہ اس فعل کی جووہ کرتے ہیں کیفیت کی دلیل موجود ہے نہ کمیت کی۔ کیونکہ وہ اس نماز کو باجماعت بیس رکعت پڑھتے ہیں اور ہر دو رکعت کے درمیان کچھ آرام کرتے ہیں۔ رہی جماعت تو حضرت عمررضی اللہ عنہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے لوگوں کو ایک معین امام پر جمع فرمایا اور فرمایا کہ بدعت (نئی چیز) ہے جیسا کہ اسے مسلم نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے اور اس کے علاوہ دوسرے محدثین نے اسے ابو ہریرہ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو قیام رمضان کی ترغیب دیا کرتے تھے مگر فرض کی طرح انہیں حکم نہیں دیتے تھے چنانچہ فرماتے کہ جو شخص ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے رمضان کا قیام کرے اس کے گزشتہ گناہ معاف کردئیے جائیں گے۔ فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے تو معاملہ
Flag Counter