Maktaba Wahhabi

377 - 896
صحیح ہے اورہے بھی حقیقت مجاز نہیں بشرطیکہ تقسیم تقسیم الکلی الی الجزئیات کے باب سے ہو جیسا کہ اس مقام پر ہے کیونکہ مستور، مجہول العین اور مجہول العدالۃ فی الظاہر والباطن تینوں مجہول کی جزئیات ہیں تو ضیح کے لیے یوں سمجھئے کہ کسی شخص نے یا کسی طفل مکتب نے لفظ مستور کو کلمہ کہہ دیا تو آیا صاحب رسالہ اس پر قدغن لگائیں گے کہ صاحب یہ درست نہیں اس لیے کہ لفظ مستور تو اسم ہے پھر کیا وہ بھی نقد فرمائیں گے کہ لفظ مستور کو اسم کہنا بھی درست نہیں کیونکہ وہ تو اسم مفعول ہے۔ 2۔ وثانیاً:کسی راوی سے دو شخصوں کے روایت کرنے سے جو مجہولیت ختم ہوتی ہے۔ وہ مجہولیت عین ہے نہ کہ مجہولیت حال اور نہ ہی مطلق مجہولیت جیسا کہ حافظ ابن حجر اور حافظ ابن صلاح کی مذکورہ بالا عبارات سے صاف صاف ظاہر ہے تو صاحب رسالہ نے اپنے قول”دوشخصوں کی روایت کے بعد کوئی راوی مجہول نہیں رہ سکتا الخ“نیز اپنے قول” تو وہ مجہول کہاں ہوا؟“ میں جو ابوالحسناء کے مجہول ہونے کی نفی فرمائی اس نفی سے اگر وہ ان کے مجہول الحال یا مطلق مجہول ہونے کی نفی مراد لیتے ہیں تو پھر وہ ابوالحسناء کو مستور کہنے کے بھی مجاز نہیں کیونکہ مجہول الحال کی نفی تو مستور ہی کی نفی ہے اور مطلق مجہول کی نفی مستور کی نفی کو مستلزم ہے لہٰذا مصنف صاحب کے قول: (1):” دو شخصوں کی روایت کے بعدکوئی راوی مجہول نہیں رہ سکتا۔ “ (2) ” تو وہ مجہول کہاں ہوا؟“ محل نظر ہیں کیونکہ وہ خود تسلیم فرمارہے ہیں کہ اس کو مستور کہیے اور یہ بات واضح کی جاچکی ہے کہ ہر مستور مجہول ہوتا ہے کیونکہ مستور مجہول کی قسم ہے تو اس بحث کا ماحصل یہ ہے کہ ابوالحسناء کی جس مجہولیت کی صاحب رسالہ نے نفی کی ہے حافظ ذہبی، ابن حجر، اور دیگر علماء نے اس مجہولیت کا اثبات نہیں فرمایا اورابوالحسناء کی جس مجہولیت کا ان بزرگوں نے اثبات فرمایا ہے صاحب رسالہ اس مجہولیت کی نفی نہیں فرماسکتے بلکہ اقرار مستوریت سے اس مجہولیت کا اعتراف فرمارہے ہیں۔ (كَمَا وَلِمَا
Flag Counter