Maktaba Wahhabi

378 - 896
تَقَدَّمَ) (اس طرح پر اور ان وجوہات کی بنا ء پر جو گزر چکیں) 3۔ وثالثاً: شرح نخبہ کی عبارت اس بات پر دال ہے کہ مستور کی روایت ایک جماعت کے ہاں بغیر کسی قید کے مقبول اور جمہور کے نزدیک( بغیر کسی قید کے) مردود ہے مگر تحقیق یہ ہے کہ دونوں قول:(1) مطلقا مقبول اور(2) مطلقا مردود صحیح نہیں درست یہ ہے کہ جب تک مستور کا حال معلوم نہ ہوجائے تب تک توقف کیا جائے نیز حافظ ابن صلاح اور امام نووی نے مستور کی روایت کے مردود ومقبول ہونے میں جو مذاہب ذکر فرمائے ہیں ان میں مؤید وغیر مؤید والی بات کسی میں بھی بیان نہیں فرمائی تو صاحب رسالہ اپنے بیان”اور جمہور کے نزدیک اس کا کوئی مؤید ہوتو مقبول ہے“ پر اصول حدیث سے کوئی حوالہ بیان فرمائیں۔ 4۔ ورابعاً:ابوعبدالرحمان سلمی کی روایت ابوالحسناء کی روایت کی مؤید تب ہوسکتی ہے جب کہ وہ خود صحیح یا حسن کم از کم شواہد ومتابعات میں پیش کرنے کے قابل بھی تو ہو اور آپ پہلے پڑ ھ چکے ہیں کہ ابو عبدالرحمان سلمی کی روایت نہ تو صحیح ہے، نہ ہی حسن او نہ ہی شواہد ومتابعات میں پیش ہونے کے قابل کیونکہ اس کی سند میں حماد بن شعیب ہے جس سے متعلق امام بخاری فرماتے ہیں:(وفيه نظر)اور جس راوی کے متعلق امام بخاری یہ فیصلہ دیں اس کی روایت نہ تو قابل احتجاج، نہ ہی قابل استشہاد اور نہ ہی قابل اعتبار۔ یاد رہے کہ ضعاف کا باہم دیگر مل کر حسن لغیرہ بننے والا قاعدہ کلیہ نہیں جزئیہ ہے جو اس مقام پر جاری نہیں ہوتا۔ 5۔ وخامساً:تیسری روایت جو آگے آرہی ہے وہ بھی مؤید بننے کے قابل نہیں کیونکہ وہ روایت سرے سے ثابت ہی نہیں چنانچہ آپ ملاحظہ فرمائیں گے ان شاء اللہ تعالیٰ تو پتہ چلا کہ مصنف صاحب کا فرمان”بہرحال یہ تینوں روایات الخ“ نقد ونظر سے خالی نہیں۔
Flag Counter