Maktaba Wahhabi

376 - 896
هذه الجهالة) (علوم الحدیث ص101) (فظهر من أقوال هولأءأان المستورأخص مطلقاً من المجهول فكل مستور مجهول ولا عكس أي بعض المجهول مستور وبعضه ليس بمستور) ”آٹھویں مجہول کی روایت کے بارے میں ہے۔ اس مقام پر ہمارے مقصود کے لحاظ سے اس کی چند اقسام ہیں ایک وہ جو ظاہر و باطن ہر لحاظ سے مجہول العدالۃ ہے اس کی روایت جمہور کے نزدیک غیر مقبول ہے جیسا کہ ہم پہلے اس سے آگاہ کر چکے ہیں۔ دوسرا وہ مجہول جس کی عدالت باطنہ معلوم نہیں اور ظاہر میں وہ عدل ہے اسی کا نام مستور بھی ہے۔ اس مجہول کی روایت کے ساتھ پہلی قسم کے مجہول کی روایت رد کرنے والوں میں سے بعض لوگ احتجاج کرتے ہیں۔ تیسرا وہ جو مجہول العین ہو۔ مجہول العدالۃ کی روایت بعض وہ لوگ قبول کرتے ہیں جو مجہول العین کی روایت قبول نہیں کرتے جس شخص سے دوعادل راوی روایت کریں اور اسے متعین کردیں اس سے یہ جہالت ختم ہو جاتی ہے۔ ابن صلاح کا کام (تھوڑے سے حذف کے ساتھ ) ختم ہوا۔ “(علوم الحدیث ص101) ”ان علماء اصول حدیث کے اقوال سے یہ بات ظاہر ہوئی کہ مستور، مجہول سے اخص مطلق ہے چنانچہ ہر مستور مجہول ہے جب کہ اس کا الٹ نہیں یعنی بعض مجہول مستور ہیں اور بعض مجہول مستور ہیں اور بعض مستور نہیں۔ “ تو اصول و قواعد کی روسے حافظ ذہبی، حافظ ابن حجر اور علامہ شوق صاحب نیموی کا اس اثر کے مرکزی راوی ابو الحسناء کو مجہول اور بالا یعرف قراردینا درست ہے کیونکہ ابو الحسناء کے مستور ہونے کا مصنف صاحب کو بھی اعتراف ہے اور مستور مجہول کی ایک قسم ہے جیسا کہ عبارات بالا سے صاف صاف ظاہر ہے اور قسم پر مقسم کا اطلاق
Flag Counter