Maktaba Wahhabi

374 - 896
نزدیک بغیر کسی قید کے مقبول ہے اور جمہور کے نزدیک اس کا کوئی مؤید ہو تو مقبول ہے اور اس کا مؤید ابو عبدالرحمٰن سلمی موجود ہے جن کی روایت پہلے گزر چکی اور تیسری روایت جو درج ذیل ہے وہ بھی مؤید ہے بہرحال یہ تینوں روایات مجموعی حیثیت سے ایسی قوی دلیل ہے جس میں کلام کی کوئی گنجائش نہیں رہ گئی۔ “(ص18، ص19) 1۔ اولاً:تو اصول حدیث کی داخل نصاب مشہور کتاب شرح نخبہ میں لکھا ہے: (فإن سُمِّيَ الرَّاوي، وانْفَرَدَ راوٍ واحدٌ بالرِّوايةِ عنه، فهو مجهول العين، كالمبهم، إلا أن يوثقه غير مَن ينفرد به عنه على الأصح، وكذا مَن انفرد عنه إذا كان متأهلاً لذلك وان روي عنه اثنان فصاعدا ولم يوثق فهو مجهول الحال وهو المستور وقد قبل روايته جماعة بغير قيد وردها الجمهور والتحقيق ان رواية المستور ونحوه مما فيه الاحتمال لا يطلق القول بردها ولابقبولها بل هي موقوفة الي استبانة حاله كما جزم به امام الحرمين ونحوه قول ابن الصلاح فيمن جرح بجرح غير مفسر۔ اه) (ص76) ”پھر اگر راوی کا نام لیا جائے اور اس سے روایت میں ایک راوی اکیلا ہو تو وہ مجہول العین ہے جس طرح مبہم الایہ کہ اس اکیلے راوی کے علاوہ کوئی اور اسے ثقہ قراردے۔ زیادہ صحیح مذہب یہی ہے اسی طرح اگر وہ اکیلا راوی جو اس سےروایت کررہا ہے اسے ثقہ قراردے جب وہ اس کی اہلیت رکھتا ہو اور اگر اس سے دو یا دو سے زیادہ راوی روایت کریں اور کسی نے اسے ثقہ قرارنہ دیا ہو تو وہ مجہول الحال ہے اور یہی مستور ہے اور اس کی روایت ایک جماعت نے بلاقید قبول کی ہے اور جمہور اسے رد کرتے ہیں اور تحقیق یہ ہے کہ مستوراور اس جیسے شخص کی روایت میں احتمال ہوتا ہے نہ اسے مطلقاً قبول
Flag Counter