بن صالح سے بیان کیا انھوں نے عمرو بن قیس سے انھوں نے ابو الحسناء سے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایک آدمی کو حکم دیا کہ انہیں رمضان میں بیس رکعات نماز پڑھائے۔ عمرو بن قیس کے متعلق میرا گمان ہے کہ الملائی ہے اسے احمد، یحییٰ ابو حاتم اور ابو زرعہ وغیرہ نے ثقہ قراردیا اور مسلم نے اس کی حدیث روایت کی ہے ابن ترکمانی کا کلام ختم ہو گیا۔ میں کہتا ہوں اس اثر کامدار ابو الحسناء پر ہے اور وہ معروف نہیں(مجہول ہے)صاحب تعلیق کا کلام ختم ہوا۔ “(ص207)
ابو الحسناء سے متعلق صاحب تقریب فرماتے ہیں:
(قيل اسمه الحسن، وقيل الحسين، مجهول، من السابعة)
”بعض نے کہا کہ اس کا نام حسن ہے بعض نے حسین۔ مجہول ہے ساتویں طبقہ سے ہے۔ “
اورحافظ ذہبی میزان میں لکھتے ہیں:
(حدث عنه شريك لا يعرف له عن الحكم بن عتيبة انتهى)
”شریک نے اس سے حدیث بیان کی حکم بن عتیبہ سے اس کی روایت معروف نہیں ہے۔ “
تو حافظ ذہبی حافظ ابن حجر اور صاحب آثار السنن علامہ نیموی نے ابو الحسناء کو(لا يعرف)اور مجہول قراردیا ہے مگر حضرت المؤلف فرماتے ہیں:
”بعض اہل علم نے ابو الحسناء کو مجہول قراردے کر اس روایت کو درجہ مقبولیت سے گرادیاہے لیکن یہ درست نہیں اس لیے کہ دوشخصوں کی روایت کے بعد کوئی راوی مجہول نہیں رہ سکتا لہٰذا جب ابو الحسناء سے ابو سعد بقال اورعمرو بن قیس دو شخص (اور شریک سمیت تین شخص) روایت کرتے ہیں تو وہ مجہول کہاں ہوا اس کو مستور کہئے اور مستور کی روایت ایک جماعت کے
|