بیس رکعات نماز پڑھائے)۔ “
سنن کبریٰ بیہقی کے الفاظ یہ ہیں:
(عَنْ أَبِي الْحَسْنَاءِ أَنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ أَمَرَ رَجُلًا أَنْ يُصَلِّيَ، بِالنَّاسِ خَمْسَ تَرْوِيحَاتٍ عِشْرِينَ رَكْعَةً وَفِي هَذَا الْإِسْنَادِ ضَعْفٌ، وَاللّٰه أَعْلَمُ) (ج2ص497)
”(ابو الحسناء سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب نے ایک آدمی کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو پانچ ترویحات بیس رکعات پڑھائے اور اس سند میں ضعف ہے واللہ اعلم۔ “(ج 2ص497)
توامام بیہقی نے خود ہی فیصلہ فرما دیا کہ اس اسناد میں ضعف ہے۔ صاحب آثار السنن اس اثر کو باسند نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
(قال العلامة ابن التركماني فی الجوھر النقی:" الأظهر أن ضعفه من جهة أبي سعد سعيد بن المرزبان البقال فإنه متكلم فيه، فإن كان كذلك فقد تابعه عليه غيره، قال ابن أبي شيبة في المصنف ثنا وكيع، عن الحسن بن صالح، عن عمرو بن قيس، عن أبى الحسناء: «أن عليا أمر رجلا أن يصلى بهم في رمضان عشرين ركعة وعمرو بن قيس أظنه الملائي وثقه احمد ويحيٰ وأبوحاتم وأبوزرعة وغيرهم واخرج له مسلم انتهي كلامه قلت :مدار هذا الاثر علي أبي الحسناء وهو لا يعرف اه )(ص207)
”علامہ ابن الترکمانی نے الجوہر النقی میں فرمایا کہ”زیادہ تریہی ظاہر ہے کہ اس کا ضعف ابو سعید بن مرزبان بقال کی وجہ سے ہے کیونکہ اس میں کلام کیا گیا ہے اگر یہی وجہ ہے تو اس حدیث میں اس کی دوسروں نے متابعت کی ہے۔ ابن ابی شیبہ نے المصنف میں فرمایا کہ ہمیں وکیع نے حسن
|