Maktaba Wahhabi

345 - 896
حدیث کے اقوال بالا سے صاف صاف ظاہر ہے”۔ (حاشیہ ص10) الفاظ ثلاث محدث، حافظ اور ثقہ نہ تو لغت میں ہم معنی ہیں اور نہ ہی محدثین کی اصطلاح میں۔ لغت میں ان الفاظ کا ہم معنی نہ ہونا تو واضح امر ہے رہی یہ بات کہ یہ تینوں الفاظ اصطلاح محدثین میں بھی ہم معنی نہیں تو یہ معلوم کرنے کے لیے آپ تذکرۃ الحفاظ پڑھیں اس میں آپ کو رجال کی ایک جماعت ملے گی جو سب کے سب ہیں تو حافظ اور محدث مگر ثقہ نہیں بلکہ ضعیف ہیں سردست بطور نمونہ آپ صرف واقدی، شاذ کوفی، علی بن زید بن جدعان اور ابن لہیعہ کے تراجم ہی پڑھ ڈالئیے۔ پہلے ان چاروں حافظوں اور محدثوں کے تراجم تذکرۃ الحفاظ سے ملاحظہ فرمائیں۔ اگر اس بندہ کی بات پر یقین نہ آئے تو پھر تھوڑی سی زحمت گوارا فرماکر ان چاروں حافظوں اور محدثوں کے حالات میزان الاعتدال سے مطالعہ فرمائیں تو ان شاء اللہ العزیز آپ کو یقین ہوجائےگا کہ کسی راوی کا حافظ اور محدث ہونا اس کے ثقہ ہونے کے ہم معنی نہیں۔ نہ تو اصلاح محدثین میں اور نہ ہی لغت میں۔ رہا صاحب رسالہ کا قول”جیسا کہ ائمہ حدیث کے اقوال بالا سے صاف صاف ظاہر ہے“۔ تو اس سلسلہ میں گزارش ہے کہ ائمہ حدیث کے اقوال بالا سے جو چیزصاف صاف ظاہر ہے وہ تو صرف اس قدر ہے کہ ایک راوی کو ایک امام حدیث نے حافظ کہا دوسرے نے اسے محدث قراردیا اور تیسرے نے اسے ثقہ بنایا تو اتنی بات سے حافظ، محدث اور ثقہ کے اصطلاح محدثین میں ہم معنی ہونے کا صاف صاف ظاہرہوناتو کجا؟اس سے تو ان تینوں الفاظ کے اصطلاح محدثین میں ہم معنی ہونے کی طرف خفی سا اشارہ بھی نہیں ہوتا۔ فتدبر۔ 7۔ وسابعاً: صاحب رسالہ رقمطراز ہیں: ”عبارات بالا سے یہ بات ثابت ہوئی کہ جن راویوں پر اس اثر کا مدار ہے وہ سب کے سب قابل اعتماد ہیں اور ان پر کسی محدث نے ادنی
Flag Counter