”ابو حاتم نے کہا کہ اس میں کوئی خرابی نہیں اور وہ ویسا قوی نہیں اور بخاری نے کہا کہ وہ ایک سوستانوے ہجری میں فوت ہوا اور بعض محدثین نے اس کی توثیق کی ہے اور وہ اپنے باپ سے زیادہ قوی ہے اور معاویہ بن صالح نے ابن معین سے نقل کیا کہ وہ فرماتے ہیں کہ وہ ثقہ نہیں اور ابوحاتم نے کہا کہ وہ قوی نہیں مجھے اس کی حدیث پسند نہیں اور احمد بن ابی خثیمہ نے ابن معین سے روایت کیا کہ انہوں نے فرمایا کہ وہ ثقہ ہے میں نے اس سے حدیثیں لکھی ہیں“۔
اور اس روایت کے تیسرے راوی حارث بن عبدالرحمان سے متعلق تقریب میں لکھا ہے:(صُدُوْقُ يَهِمُ)(صدوق ہے اسے وہم ہوجاتا ہے) اور میزان میں ہے: ( عن المقبري ثقة وقال أبو حاتم : "ليس بالقوي " . روى عنه الدراوردي مناكير، وقال ابن حزم ضعيف وقال أبوزرعة ليس به بأس)
(مقبری سے ہے کہ وہ ثقہ ہے اورابوحاتم نے کہا کہ وہ قوی نہیں اس سے دراوردی نے کئی منکر حدیثیں روایت کی ہیں او رابن حزم نے کہا ضعیف ہے اور ابوزرعہ نے کہا اس میں کوئی خرابی نہیں) پھر یہ روایت حضرت سائب بن یزید کی گیارہ، تیرہ اور اکیس رکعات والی روایات کے خلاف بھی ہے۔
6۔ وسادساً:صاحب رسالہ فرماتے ہیں” محدثین کی اصطلاح میں محدث حافظ اور ثقہ ہم معنی الفاظ ہیں دراصل ایک ہی حقیقت کی مختلف تعبیریں ہیں جیسا کہ ائمہ
|