زحمت گوارا فرمائیں گے؟
2۔ جناب قاضی صاحب کے پاس بیس رکعت کی سنیت کے دلائل تو تھے نہیں کہ وہ انہیں سپرد قلم فرماتے۔ اس لیے جب وہ ميری طرف سےآٹھ رکعت کی سنیت پر پیش کردہ دلائل کا تحریراً جواب نہ دے سکے تو انھوں نے ہمارے گاؤں میں شو ر مچانے کے لیے اپنے رنگ میں رنگے ہوئے چند حواری بھیج دئیے۔ جن کی روئداد آپ ہمارے پہلے پمفلٹ میں بھی پڑھ چکے ہیں۔ پھر جب وہ اس حربہ سے بھی کامیاب نہ ہو سکے۔ اور میری تحریر پر تحریر بھی ان کے پاس پہنچ گئی۔ تو اُنھوں نے ہوش و حواس سنبھالے اور ایک مغالطہ آمیز تحریر میرے پاس بھیج دی لیکن ان کی اس تحریرکے موصول ہونے سے پہلے ہمارا پمفلٹ شائع ہو چکا تھا۔ اس لیے ان کی یہ تحریر پمفلٹ میں شائع نہ ہو سکی۔ ادھر اُنھوں نے اس بات کو رنگ دینا شروع کردیا کہ غیر مقلدین نے میری اس تحریر کو پمفلٹ میں شائع نہیں کیا۔ وغیرہ وغیرہ۔
جناب قاضی صاحب کی اس تحریر میں کیا تھا۔ نفس مسئلہ کے متعلق ان کے ڈھب تو آپ کو پہلے ہی سے معلوم ہیں کہ بیس رکعت سنت کے دلائل سے تو وہ بالکل تہی دامن ہیں۔ تو ان کی یہ تحریر بھی ان پہلی تحریروں کی طرح بیس رکعت سنت کے دلائل سے تہی دامنی كے مظاہرہ کا ہی آئینہ دار تھی۔ البتہ ایک بات اُنھوں نے اس میں نہیں کہی جسے وہ اپنی کامیابی کا نرالا حربہ سمجھے بیٹھے ہیں۔ وہ یہ کہ:
”دن کا تعین، مسئلہ نزاع کا تعین اور گفتگو پر آمادگی تحریر کرکے بھیج دیں اور نورپورکے علاوہ کسی اور جگہ کا بھی تعین کردیں۔ آپ کی خدمت کےلیے وہاں ہی کوئی ہمارا شاگرد حاضر ہو جائے گا اور اگر آپ کے بزرگ یعنی استاد جن سے مشورہ کے لیے آپ کو جانا پڑا بقول آپ کے رقعہ رساں کے اگر وہ گفتگو کا شوق فرمائیں تو میں بذات خود گفتگو کر سکتا ہوں پھر نمائندگی کا سوال ختم ہو جائے گا۔ “
|