کی روایت مرسل ومنقطع ہے۔
اگر جناب قاضی صاحب کو یہ وہم ہے کہ موطا امام مالک میں تو یہ روایت واقعی منقطع السند ہے لیکن حدیث کی دوسری کتاب میں اس کی سند متصل بیان کی گئی ہے تو وہ متصل سند تحریر فرمادیں۔ ہم ان کے ممنون ہوں گے۔
غلطی نمبر 13:
جناب قاضی صاحب پمفلٹ صفحہ نمبر 44 پریزید بن رومان کی روایت کے متعلق فرماتے ہیں کہ یہ” باتفاق محدثین صحیح ہے۔ “
محترم قارئین !قاضی صاحب کا یہ دعویٰ بھی بے بنیاد اور غلط ہے۔ کیونکہ متصل السند ہونامحدثین کے ہاں روایت کی ماہیت میں داخل ہے چنانچہ حافظ صاحب فرماتے ہیں:
(وَخَبَرُ الآحَادِ بِنَقْلِ عَدْلٍ تَامِّ الضَّبْطِ، مُتَّصِلُ السّنَدِ، غَيْرُ مُعَلَّلٍ وَلاَ شَاذٍّ)(شرح نخبہ صفحہ نمبر 25) صحیح روایت کے لیے پانچ امور کاہوناضروری ہے۔
1۔ اس کے راوی عادل ہوں۔
2۔ اس کے راوی ضابط ہوں۔
3۔ اس کی سند متصل ہو۔
4۔ وہ معلل نہ ہو۔
5۔ وہ شاذ بھی نہ ہو۔
اور یزید بن رومان کی روایت متصل السندنہیں تو اب اسے باتفاق محدثین صحیح کہنا اصول حدیث سے ناواقفی نہیں تو اور کیا ہے۔ یا ؎
إن كُنتَ ما تدري فتلكَ مُصيبةٌ
أو كُنتَ تدري فالمصيبةُ أعظمُ
غلطی نمبر 14:
قاضی صاحب پمفلٹ صفحہ نمبر 37 پرحضرت سائب بن یزید کی حدیث کہ
|