ہے۔ “ شاید آپ نہ جانتے ہوں کہ آخر اس پُر فریب دعویٰ کوجناب قاضی صاحب کی ذات گرامی سے کیا تناسب ہے؟ یہ مذہب کی پچ کانتیجہ نہیں تو اور کیا ہے؟ البتہ مندرجہ بالا کتب میں یہ مذکور ہے کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعت پر اضافہ نہیں فرمایا کرتے تھے۔ نیز فتح الباری اور عمدۃ القاری میں ہے کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نےصحابہ کرام کو رمضان میں آٹھ رکعت نماز پڑھائی۔ آخرمیں قاضی صاحب کا شکریہ ادا کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ کیونکہ انہوں نے حوالہ تو دیا ہے چاہے حسب معمول غلط ہی ہو یادوسرے لفظوں میں یہ بات ہوگی ؎
آگیا داغ اس کے دل میں یہ غرور
مشکل ہے دنیا میں لاثانی میری
غلطی نمبر 10:
قاضی صاحب پمفلٹ صفحہ نمبر 42 پر بیس رکعت صلوٰۃ تراویح کے مسنون ہونے کے متعلق فرماتے ہیں۔ ” کیا یہ کہنا درست ہوگا۔ کہ ساری اُمت خلاف سنت پر متفق ہوگئی تھی۔ “
ناظرین کرام!بیس رکعت باجماعت صلوٰۃ تراویح کے مسنون ہونے پر ساری اُمت کے اتفاق کا دعویٰ کرنا شدید غلط اور واقع کے خلاف ہے آپ پڑ ھ چکے ہیں۔ کہ قاضی صاحب نے اس بات کابھی اعتراف کیا ہے۔ کہ عدد رکعات کے بارے میں مذاہب مختلفہ موجود ہیں۔ تو پھر بیس پر ساری اُمت کے اتفاق کادعویٰ کیونکر درست ہوسکتا ہے۔ نیز آپ پانچویں باب میں پڑھ چکے ہیں۔ کہ بیس رکعت صلوٰۃ تراویح کے مسنون ہونے پرساری امت حنفیہ کابھی اتفاق نہیں۔ پھر اس پر ساری امت کےاتفاق کادعویٰ کیسے قابل قبول ہوسکتا ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ اپنی بھیڑوں کو قبضہ رکھنے کے لیے انہیں اس قسم کے واقع کےخلاف دعاوی کے ذریعہ چکمے دیئےجارہے ہیں۔ ورنہ ان کی حقیقت هَبَاءً مَّنثُورًا کے سوا کچھ نہیں۔
|